احیاء نفس بقتل نفس اخریٰ لم یرد فی الشرع (۱)، یا شرح السیر الکبیر کی یہ عبارت کہ "ان الملم لا یحل لہ ان یقی روحہ بروح من مژلہ فی الحرمۃ (۲)" مگراس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب دونوں زندگیاں اور دونوں وجود ایک درجہ کے ہوں اور یہاں ماں کا وجود مشاہد ہے جبکہ بچہ کی زندگی موہوم ہے۔
نفخِ روح سے قبل اسقاط
نفخ روح سے پہلے اسقاطِ حمل کے متعلق بعض فقہاء کی عبارتوں سے شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو مطلقاً جائز اور درست سمجھتے ہیں۔ اس طرح کی تحریریں احناف شوافع اور حنابلہ تینوں ہی کے یہاں موجود ہیں۔ البتہ مالکیہ اور شوافع میں امام غزالی نے نفخِ روح سے پہلے بھی اسقاطِ حمل کو مطلقاً ناجائز قرار دیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ احناف شوافع اور حنابلہ کے ہاں بھی یہ جواز اس صورت میں ہے جب کوئی عذر درپیش ہو، بلا عذر اسقاط ممنوع اور گناہ کا باعث ہے۔ علامہ اب عابدین شامی لکھتے ہیں "لا یخفی انھا تأثم اثم القتل لو استبان خلقہ و مات بفعلھا" (۳) (یہ بات ظاہر ہے کہ اگر اس کی تخلیق ظاہر ہو جائے اور عورت کے کسی فعل کی وجہ سے اس کی موت ہو تو اس کو قتل کا گناہ ہو گا)۔
اعضاء کے ظہور سے پہلے اور استقرار حمل کے بعد بھی اسقاط جائز نہیں۔ "انہ یکرہ ذان الماء بعد ما وقع فی الرحم مالہ الحیاۃ فیکون لہ حکم الحیاۃ کما فی بیضۃ صد الحرم" (۴)۔ (اعضاء کے ظہور سے پہلے بھی اسقاط مکروہ ہے کیونکہ مادۂ منویہ کے
-------------------------------------------------------------
(۱) البحر الرائق ۸/۲۰۵۔
(۲) شرح السیر الکبیر۔
(۳) رد المختار ۵/۵۱۹۔
(۴) حوالہ سابق ۵/۵۵۲۔