غبن فاحش
گو شریعت نے نفع کے لیے کوئی خاص مقدار متعین نہیں کی ہے لیکن اتنا نفع لینا جو "غبن فاحش" کے درجہ میں آ جائے، مکروہ ہے۔ غبن فاحش سے مراد یہ ہےکہ مختلف واقف کار لوگ ایک سامان کی جو قیمت لگاتے ہوں، قیمت ان سب سے بڑھ جائے، اتنا کثیر نفع لینا مزاجِ شریعت کے خلاف ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ نے خوب لکھا ہے کہ تاجرانہ نفع کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ محتاج کی ضرورت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے خوب گراں بیچا جائے، دوسرے کہ کہ معمولی نفع لیا جائے اور جلد جلد اس کو استعمال میں لایا جائے۔ نفع کی یہ دوسری شکل تمدنی تقاضوں کے مطابق بھی ہے اور برکت کا باعث بھی (۱)۔
تجارت عبادت میں خلل انداز نہ ہو
تجارت کی ان صورتوں میں کہ شریعت نے ان سے منع کیا ہے، یہ بھی ہے کہ وہ خالص عبادت میں خلل کا باعث بنتی ہو، قرآن مجید نے جمعہ کے بارے میں خصوصیت سے تاکید کی کہ جب اذانِ جمعہ ہو جائے تو نماز کے لئے دوڑ پڑو " إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ﴿۶۲:٩﴾۔ جمعہ کے لیے چوں کہ زیادہ وقت مطلوب ہوتا ہے اور نماز کے علاوہ خطبہ بھی ہوتا ہے اس لیے خاص اہتمام سے توجہ دلائی گئی، ورنہ ہر نماز اور عبادت کے لئے یہی حکم ہے۔
اسی طرح مساجد خالصتہً اللہ کے ذکر، دین کی دعوت و تذکیر اور عبادت
-------------------------------------------------------------------
(۱) حجۃ اللہ البالغہ ۲/۲۷۱ البیوع المنہی عنہا۔