۴۷۳
یا عیب کا ذکر کر دے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان کی بیوی نے اپنے شوہر کے مال میں سے کچھ لینے کے متعلق مسئلہ پوچھتے ہوئے عرض کیا کہ ابو سفیان بخیل آدمی ہیں۔ اتنا نہیں دیتے کہ میرے اور بچوں کے لئے کافی ہو جائے، کیا میں ان کے مال میں سے (بلا اجازت) کچھ لے سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بقدر کفایت لے سکتی ہو۔" لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ استفتاء میں بھی ایسے مسائل میں متعلق شخص کے نام کی صراحت کے بجائے فرضی ناموں کے ذریعہ سوالات کئے جائیں۔
چوتھے : کسی مسلمان کو کسی شخص کے شر سے بچانا مقصود ہو، مثلاً کوئی نکاح یا سامان امانت رکھنے کے سلسہ میں مشورہ کرے، ایسے شخص کو خادم رکھے جو چوری وغیرہ کا عادی ہو، خریدار بیچنے والے کو کھوٹا سکہّ دے اور وہ اس کے کھوٹے ہونے سے واقف ہو، ایسی صورتوں میں ایک مسلمان کو ضرر اور شر سے بچانے کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔
پانچویں کوئی انسان کسی ایسے نام سے معروف ہو گیا ہو جس سے اس کے نقصِ جسمانی کا اظہار ہوتا ہو تو تعارف کے لیے ایسے ناموں کے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، جیسے بعض مشہور علماء اَعرج (لنگڑا)، اعمش (کانا) وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں یا جیسے ہمارے یہاں بعض بصارت سے محروم لوگ حافظ نابینا یا حکیم نابینا وغیرہ سے مشہور ہو جاتے ہیں، انہی ناموں سے ان کا ذکر کرنے میں مضائقہ نہیں۔
چھٹے : ایسا شخص جو علانیہ فسق و فجور کرتا ہو اور اس سے نہیں شرماتا ہو، اس کی اس برائی کے بیان کرنے میں بھی مضائقہ نہیں۔