۴۷۵
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین مواقع پر جھوٹ کی اجازت دیتے تھے، ایک اس صورت میں جب دو مسلمان کے درمیان مصالحت مقصود ہو، دوسرے جنگ میں تاکہ دشمن کو دھوکہ دیا جا سکے، تیسرے شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو خوش کرنے کے لیے (۱)۔ حدیث کا مقصود تین ہی صورتوں کا حصر نہیں بلکہ بقولِ امام غزالی اصل اہمیت مقصود کی ہے، وہ مقاصد جو شریعت کی نگاہ میں مطلوب اور پسندیدہ ہیں، اگر سچ اور جھوٹ دونوں ذریعہ سے حاصل کئے جا سکتے ہوں، تو جھوٹ بولنا حرام ہے اور اگر جھوٹ بول کر ہی وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہو تو اگر وہ مقصد مباح کے درجہ کا ہو تو جھوٹ بولنا بھی مباح ہو گا اور واجب کے درجہ کا ہو تو جھوٹ بولنا بھی واجب۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے میمون بن مہران سے خوب نقل کیا ہے کہ بعض دفعہ جھوٹ سچ سے بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مسلمان کے قتل کے درپے ہو اور وہ چھپ جائے، آمادۂ قتل مجرم اس کی تلاش میں آئے تو اس موقعہ پر جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا، سچ بول کر اس کی نشاندہی کرنے سے بہتر ہے (۲)۔ علامہ حصکفی نے اس سلسلہ میں ایک قائدہ بیان کیا ہے کہ اپنے حق کے تحفظ اور ظلم سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے (۳) ۔ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ سچ کے ذریعہ جو فساد ہوتا ہو وہ جھوٹ کے فساد سے بڑھ کر ہو تو جھوٹ جائز ہو گا ورنہ حرام (۴)۔
---------------------------------------------------------------------
(۱) تخریج احادیث احیاء العلوم للعراقی ۳/۱۳۷۔
(۲) احیاء العلوم ۳/۱۳۷۔
(۳) در مختار علیٰ ہامش الرد ۵/۲۷۴۔
(۴) رد المختار ۵/۲۷۴۔