عام طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی ہی تلقین فرمائی ہے۔ بعض روایات میں اس کے جواب میں پھر چھینکنے والے کو بھی بعض فقرے کہنے کی ہدایت دی ہے۔ حضرت ابو ایوب سے مروی ہے کہ "یھدیکم اللہ و یصلح بالکم" (اللہ تجھے ہدایت دے اور تمہارے حالات درست کرے) کہے اور سالم بن عبید سے روایت ہے کہ "یغفر اللہ لنا ولکُم" (اللہ ہم کو اور تم کو معاف فرمائے) کے الفاظ کہے جائیں (۱)۔ الفاظ و تعبیرات کا یہ اختلاف کوئی تضاد کے قبیل کی بات نہیں ہے، منشاء نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے ان الفاظ ماثورہ میں سے کسی طرح بھی کلمہ تحمید کہا جائے اور جواب دیا جائے، کافی ہے۔ لیکن ان کے بجائے اپنی طرف سے کسی مضمون کا اضافہ نہ کرے۔ ایک صاحب کو چھینک آئی، انہوں نے جواب میں کہا "السَّلام علیک"۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ایسی تعبیر میں جواب دیا جو ناپسندیدگی کا مظہر تھا، فرمایا "علیک و علیٰ امّک" (۲)۔ حضرت ابن عمر کے سامنے ایک چھینکنے والے نے "الحمد للہ" کے ساتھ "والسَّلام علی رسُول اللہ" کا اضافہ کر دیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ درود ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجتے ہیں مگر اس موقع سے ہمیں اس کی تعلیم نہیں دی گئی۔ (۳)۔
تین بار تک چھینک کا جواب دیا جائے۔ اس کے بعد دینا مستحب نہیں (۴)۔ بعض اوقات ایک چھینک کا جواب دینے کے بعد دوسرے اور تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ اس شخص کو زُکام ہے (۵)۔
----------------------------------------------------------------
(۱) دیکھئے : ترمذی، باب ماجاء کیف تشمیت العاطس۔
(۲) ترمذی، حوالۂ مذکور، یہ فقرہ اصل میں مخاطب کی نادانی اور حمق کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے، مرقاۃ ۵۹۳/۴۔
(۳) ترمذی، باب الیقول العاطس الخ۔
(۴) ترمذی، باب ماجاء کم یشمیت العاطس عن یزید بن عبد الرحمٰن عن امہ عن ابیہا۔
(۵) حوالۂ سابق۔