درستی اور گناہوں کی معافی کی ضمانت قرار دیا ہے (احزاب:۱۲) اس لئے کہ انسان کو کچھ بولتا ہے دنیا میں تو وہ رنگ لاتا ہی ہے، آخرت کے لئے بھی اس کے یہ بول محفوظ ہو جاتے ہیں اور دراصل ہر وقت اس کے قول و فعل کا نگراں اس کے پاس ہی موجود رہتا ہے (ق:۲)۔ اسی طرح ایسی گفتگو جو بے مقصد اور لایعنی ہو ناپسندیدہ اور مذموم ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ اس پر اس کو خدا سے مغفرت کا طلبگار ہونا چاہیے۔
روایت میں ہے کہ بہترین مسلمان ہونے کی پہچان لایعنی باتوں کا چھوڑنا ہے (۱)۔ اسی طرح ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کو نجات کی ضمانت قرار دیا ہے (۲) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مجلس میں لایعنی کلام کی کثرت ہو جائے تو اٹھنے سے پہلے یہ دُعا پڑھ لے :
سبحانک اللّٰھم و بحمدک اشھد ان الا الٰہ الا انت استغفرک و اتوبُ الیک۔ (۳)اللہ کی ذات پاک اور قابل تعریف ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ سے مغفرت کا طلبگار ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔
گفتگو کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ نرم گفتگو کی جائے اور درشت کلامی سے پرہیز کیا جائے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو جب فرعون کے پاس دعوت ایمان دینے کے لیے بھیجا گیا تو خاص طور پر نرم گوئی کی ہدایت کی گئی (طٰہٰ:۲) گفتگو میں بے ضمیری، تملق و خوشامد اور اپنے نفس کی اہانت روا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص تعریف
---------------------------------------------------------
(۱) مالک عن لقمان باب ماجاء فی الصدق والکذب۔
(۲) ترمذی عن عبد اللہ ابن عمر و بحوالۂ مذکور۔
(۳) ترمذی عن ابی ہریرۃ۔