ثلاثہ کے نزدیک درست نہیں ہوگا ، :القسم الثالث ؛ ان یبیعھا مطلقا ولم یشترط قطعا ولا تبقیہ فالبیع باطل وبہ قال مالک والشافع واجازہ ابو حنیفۃؒ (1) احناف نے گو اس کو جائز رکھا ہے لیکن ان کے یہاں بھی واجب ہے کہ اس طرح معاملہ طے پا جانے کے بعد خریدار پھل توڑ لے ، اس کو حق نہیں ہے کہ درخت پر پھل باقی رکھے وعلی المشتری قطعھا فی الحال اذا باع مطلقا او بشرط القطع (2) اور اگر معاملہ اس شرط کے ساتھ طے پا جائے کہ مالک پھل درخت پر رہنے دے گا تاآنکہ پھل پک نہ جائے تو ائمہ ثلاثہ کے ہاں تو بیع فاسد ہو گی ہی ، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بھی درست نہ ہو گی ۔ اما اذا با ع بشرط الترک فھو فاسد (3) کیوں کہ خرید وفروخت کے معاملہ میں خریدار نے ایک ایسی شرط لگادی ہے جس میں اس کے لئے منفعت ہے اور ایسی شرط سے آپؐ نے منع فرمایا ہے۔
3۔ کچھ پھل نکل آئے اور کچھ پھل نہیں نکلے بلکہ مستقبل میں ان کا نکلنا متوقع ہو ، اب مالکِ باغ تمام پھلوں کو فروخت کرتا ہے ، ان کو بھی جو نکل آئے اور ان کو بھی جو نہیں نکلے امام مالک ؒ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے ،ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہؒ ، شافعیؒ اور احمدؒ کے نزدیک جائز نہیں ۔ واذا باع الثمرۃ الظاھرۃ وما یظھر بعد ذلک لم یصح البیع عند ابی حنیفۃ والشافعی واحمد وقال مالک یجوز (4)
اسی طرح اگر پھل قابل استعمال ہو گئے اور باغ کے باقی پھل ابھی قابل استعمال نہیں ہوں تو بھی امام شافعی واحمد کے بخلاف امام مالک نے اس کی اجازت دی ہے بشرطیکہ باغ کے تمام درخت ایک ہی پھل کے ہوں ، احناف کے ہاں عام اصول کے مطابق نکلے ہوئے پھلوں کے ساتھ ان پھلوں کی فروخت درست نہ ہو گی جو ابھی
--------------------------
(1) المغنی 72/4 (2) عالمگیری 109/3
(3) تحفۃ الفقہاء 55 (4) رحمۃ الامۃ 177