نکلےہی نہ ہوں، یہی فقہاء احناف کے یہاں ظاہر روایت ہے۔
دوسری طرف عوام میں بڑھتا ہوا تعامل، کہ کچھ پھل آتے ہی باغ فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بعض فقہاء نے اس میں نرم روی اختیار کی ہے۔ چنانچہ اب نجیم رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ امام فضلی کہتے ہیں کہ لوگوں کا انگور کی خرید و فروخت میں اسی نوعیت کا تعامل ہو گیا ہے اور اب ان کو اس روکنے میں حرج ہے، اس لیے استحسانا! میں اس کو جائز قرار دیتا ہوں۔ نیز امام محمد رحمہ اللہ نے درخت پر لگے ہوئے گلاب کی خرید و فروخت کی اجازت دی ہے۔ حالانکہ گلاب کے پھول یکبارگی نہیں نکلتے اور کھلتے ہیں، بلکہ یکے بعد دیگرے نکلتے ہیں۔ بعد کے فقہاء نے عام تعامل کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلہ میں امام فضلی ہی کی رائے پر عمل کیا ہے پھر چوں کہ مارکیٹ میں جو کچھ پھل آتا ہے وہ اسی طریق پر، اس لئے پھل کا کھانا حرام ہو جائے گا۔ پس اب اس طرح کی خرید و فروخت نے ضرورت کا درجہ اخیتار کر لیا ہے۔ لہذا جس طرح انسانی ضرورت کی رعایت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "سِلم" کی اجازت دیدی حالاں کہ وہ ایک شئ معدوم کو فروخت کرنا ہے، اسی طرح پھلوں کی خرید و فروخت کی اس نوعیت کے معاملات کو بھی درست کہنا چاہیے۔
۴ - پھل نکل آئے اور انسانی استعمال کے قابل بھی ہو گئے، جس کو حدیث میں "بد و صلاح" سے تعبیر کیا گیا ہے، ائمۂ ثلاثہ مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس صورت میں بہرحال خرید و فروخت درست ہے، چاہے غیر مشروط خرید و فروخت ہو یا فوراً توڑنے کی شرط ہو یا پھل کی تیاری تک درخت پر رکھنے کی، نیز خریدار کو غیر مشروط معاملہ یا پھل کی تیاری تک درخت پر رکھنے کی شرط کی صورت میں حق حاصل ہو گا کہ پھل کی تیاری تک پھل درخت پر رہنے دیا جائے۔ و جملۃ