یہ عدت مختلف عورتوں کے لئے مختلف ہے :
اگر حاملہ ہو تو عدت بچہ کی پیدائش تک ہے، بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی عدت مکمل ہو گئی (الطلاق:۴)۔ حاملہ نہ ہو مگر ماہواری کا سلسلہ جاری ہو تو جس پاکی میں طلاق دی گئی ہے اس کے بعد تین حیض تک عدت گزارے گی اور اگر مسنون اور بہتر طریقہ کے خلاف ناپاکی کی حالت میں طلاق دی ہے تو اس ناپاکی کے علاوہ مزید تین حیض عدت گزارنی ہو گی (البقرہ : ۲۲۸)۔ حاملہ نہ ہو اور بچپن کی وجہ سے ابھی خون آنے کی ابتدا ہی نہ ہوئی ہو یا درازیٔ عمر کی وجہ سے ماہواری کا سلسلہ بند ہو گیا ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے (الطلاق:۴) اگر طلاق پہلے تاریخ کو دی ہو تو قمری مہینہ کے حساب سے تین ماہ عدت گزاری جائے گی اور اگر مہینہ کے درمیان میں ایسی نوبت آئے تو نوے دن عدت کے شمار کئے جائیں گے (۱)۔ اس عورت کو جس کے ساتھ مرد کی یکجائی کو نوبت ہی نہ آئی ہو، طلاق کی عدت گزارنے کی ضرورت ہی نہیں (۲)۔
طلاقِ رجعی کی عّدت میں عورت کو خوب بناؤ سنگار اور زیب و زینت کرنا چاہیے تاکہ اس کی طرف مرد کی طبیعت کا میلان ہو، نیز چوں کہ طلاق رجعی کے بعد عدت ختم ہونے تک وہ پہلے ہی شوہر کی زوجیت میں رہتی ہے، اس لئے صراحۃً یا اشارۃً کسی دوسرے مرد کے لئے درست نہیں کہ اسے نکاح کا پیغام دے (۳)۔
طلاق بائن اور مخلظہ کے بعد عورت فوراً زوجیت سے نکل جاتی ہے اور بیوی باقی نہیں رہتی، لہٰذااس جدائی پر اظہار افسوس کے لئے اسے زیب و زینت
------------------------------------------------------------
(۱) الکواکب المشرفہ صف ۳۷، فتاویٰ عالمگیری ۲/۱۳۵۔
(۲) الفتاویٰ الہندیہ ۲/۱۳۴۔
(۳) الفتاویٰ الہندیہ ۲/۱۳۷، الباب الرابع عشر۔