یہاں عام طور پر شوہر کی دوسری شادی کر لینے کی وجہ سے عورتیں طلاق کا مطالبہ کرنے لگتی ہیں حالاں کہ یہ دوسری شادی اس کی طرف سے ظلم اور ناانصافی کا باعث نہ بنے تو جائز اور درست ہے اس پر طلاق کا مطالبہ غلط ہے۔
ہاں اگر کسی وجہ سے اس بات کا قوی اندیشہ ہو کہ وہ دونوں ایک ساتھ زندگی بسر نہ کر سکیں گے، آپس میں سخت نفرت اور تناؤکی فضا پیدا ہو گئی ہے اور تعلقات اس مرحلہ میں آ گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے حقوق میں کوتاہی کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہو تو اَب شریعت اس کی اجازت دیتی ہے اور جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو مرد کا بھی فریضہ ہے کہ وہ بیوی کے مطالبہ پر اسے طلاق دے دے اور اپنے لئے کِسی نئی سَاتھی کا انتخاب کر لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ شوہرکے زدوکوب کرنے یا اس کے بدصورت ہونے کی بنا پر بیوی نے خلع کی خواہش کی اور حضور ﷺ نے مہر میں دیا ہوا سامان بیوی سے واپس دلا کر شوہر کو حکم دیا کہ وہ طلاق دے دیں (1) اور ہمارے ہندوستانی سماج میں تو عموماََ عورتیں اسی وقت اس قسم کے مطالبات کرتی ہیں جب پانی سَر سے اونچا ہو جاتا ہے اور آپسی تناؤ اور کشیدگی حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔
خلع میں دوباتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک تو شوہر کا طلاق پر آمادہ ہو جانا، دوسرے عورت کی طرف سے اس کا کچھ معاوضہ ۔ اگر شوہر طلاق پر آمادہ نہ ہو تو عورت یکطرفہ اس طرح خلع نہیں کر سکتی جیسے مرد کو طلاق کا اختیار حاصل ہے البتہ اس کے لئے یہ گنجائش رہتی ہے کہ مرد کی واقعی زیادتی اور علیحٰدگی کیلئے معقول وجہ ثابت کر کے قاضی شرع کے یہاں سے اپنا نکاح توڑ ڈالے۔
-----------------------------------------------------------------
(1) ابو داؤد باب الخلع 303/