ہے اور انسانوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حلال وحرام کی تمیز اٹھا دی جائے اور جائز و نا جائز کی راہ چھوڑ دی جائے۔
ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا و سخر لکم ما فی السموات وما فی الارض جمیعا ( )
وہ ذات باری ہی ہے جس نے دنیا کی ساری چیزیں تمھارے لئے پیدا فرمایا اور آسمان اور زمیں کی تمام چیزوں کو تمھارے تابع کر دیا۔
پھر حرام میں کچھ اشیا حرام لذاتہ ہیں اور کچھ حرام لغیرہ۔ کسی کی حرمت بڑھی ہوئی ہے اور کسی کی کم مگر حرام بہرحال حرام ہے، جس کی حرمت دلیل قطعی یقینی سے ثابت ہو اور اس میں کسی تاویل کا احتمال نہ ہو اس کا چھوڑ دینا فرض ہوتا ہے اور ایسے حرام کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، جس طرح فرض قطعی کا منکر کافر ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی حرام کو حرام سمجھ کر کریگا وہ گنہ گار تو ہو گا مگر اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں ہوگا۔
موجودہ دور مادی دور ہے،روحانیت عنقاء ہے۔لوگوں میں عقائد کی پختگی،معاملات کی صفائی اور اخلاق و اعمال کی پاکیزگی نا پید ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف خدا بیزاری کا فتنہ پورے عروج پر ہے اس لئے ضرورت ہے کہ دینی مسائل کی اشاعت پر توجہ دی جائے اور حرام و حلال کو بیان کیا جائے تاکہ یہ مسائل لوگوں کی نگاہ سے اوجھل نہ رہیں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مدارس دینیہ کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور ان سے بڑی تعداد میں علماء ومشائخ پیدا ہو رہے ہیں اور ان کی تعلیم و تبلیغ سے برصغیر کا ہر خطہ معمور ہے اور عوام و خواص ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔