بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب کے باہر دعوتِ اسلام کی مہم شروع کی اور مختلف سربراہانِ مملکت کو خطوط لکھے تو لوگوں نے عرض کیا کہ اہلِ روم مہر کے بغیر خطوط قبول نہیں کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنائی اور اس پر "محمد رسولُ اللہ" کا نقش کندہ کرایا تاکہ اس سے مہر کاکام لیا جا سکے (۱)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سونے کی انگوٹھی استعمال کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھا دیکھی بہت سے صحابہ نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی پھینک دی اور اعلانیہ فرمایا کہ میں یہ پھر نہیں پہنوں گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاءِ راشدین کے پاس رہا کرتی۔ یہاں تک کہ عہد عثمانی میں "بیر اریس" میں گری اور پھر مل نہ سکی (۲)۔ اسی روایت سے اہل علم نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ آغازِ اسلام میں مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ بعد کو ممانعت کر دی گئی (۳)۔ بلکہ مردوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق سونے ہی کے استعمال سے منع فرما دیا (۴)۔
خاتم مبارک کا حلقہ تو چاندی کا تھا ہی، نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا (۵)۔ البتہ اس کی وضع اور ساخت حبشی تھی (۶)۔ دائیں بائیں دونوں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ثابت ہے (۷)۔ انگوٹھی جس ہاتھ میں بھہ خضر (چھوٹی انگلی) میں پہنے (۸)۔
--------------------------------------------
(۱) بخاری عن انس، باب اتخاذ الخاتم۔ لیختم بہ الشیٔ الخ ۲/۸۷۳۔
(۲) بخاری عن ابن عمر، باب خاتم الفضۃ ۲/۸۷۱۔
(۳) کتاب الاحتبار للحازمی ۷/۲۳۰، باب اباحۃ لیس خاتم الذہب و نسخہا۔
(۴) بخاری عن براء بن عازب، باب خواتیم الذہب ۲/۸۷۱۔
(۵) بخاری عن انس، باب فص الخاتم ۲/۸۷۲۔
(۶) ابو داؤد عن انس، باب ماجاء فی اتخاذ الخاتم ۲/۵۷۹، حدیث کا مفہوم ملا علی قاری نے بتایا ہے۔
(۷) ابو داؤد عن علی و ابن عمر، باب ماجاء فی الختم فی الیمین او الیسار ۲/۵۸۰۔ مِقاہ ۴/۴۴۴۔
(۸) ابو داؤد عن بن عمرو بن عباس، باب مذکور ۲/۵۸۰۔