میں اس باب میں یہ سمجھے ہوا ہوں کہ جس جگہ یہ لباس قومی ہے جیسے ہندوستان میں وہاں اس کا پہننا من تشبہ بقوم فھو منھم میں داخل ہونا ہے اور جہاں ملکی ہے جس کی علامت یہ ہے کہ وہاں سب قومیں اور سب مذاہب کے لوگ ایک ہی لباس پہنتے ہیں وہاں پہننا کچھ حرج نہیں (1)
واقعہ یہ ہے کہ تشبہ کے مسئلہ میں ان بزرگوں کی رائے نہایت متوازن اور شریعت کے مزاج ومذاق سے قریب ہے کہ جب تک کوئی لباس کسی خاص قوم کے ساتھ یا فاسق وبددین لوگوں کے ساتھ مخصوص ہو ،تشبہ مکروہ ہو گا اور جوں جوں اس لباس میں عموم پیدا ہوتا جائے گا ، کراہت کم ہوتی جائے گی یہاں تک کہ جب لباس کی وضع عام ہو جائے اسے دیکھ کر یہ شبہ نہ ہو تا ہو کہ یہ فلاں قوم کا آدمی ہے تو اب اس لباس کا پہننا تشبہ کی بناپر مکروہ نہیں ہو گا--------فی زمانہ کوٹ ، پینٹ ، ساڑی یا اس طرح کے بعض مردانہ یا زنانہ ملبوسات اسی زمرہ میں آتے ہیں
اسی طرح مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبہ ممنوع سے منع کیا گیا ہے وہ بھی ایسے لباس میں ہے کہ جن کو دیکھ کر عورتوں کے مرد یا مرد کے عورت ہونے کا گمان ہوتاہو ۔، اس کا اندازہ شارحٰین حدیث کی ان عبارتوں سے ہوتا ہے جو مرد وعورت کے باہم تشبہ کے بارے میں ہے مثلا علامہ عینی لکھتے ہیں :
وتشبہ الرجال بالنساء فی اللباس والزینۃ التی تختص بالنساء مثل لبس المقانع والقلائد والمخالق والاسورۃ الخلاخل والقرط ونحو ذلک مما لیس للرجال لبسہ وتشبہ النساء بالرجال
مردوں کاعورتوں کا تشبہ اختیار کرنا یہ ہے کہ عورتوں کا لباس اور ان کے لئے مخصوص زینت وآرائش کا استعمال ہو مثلا ہار ، کنگن ،پازیب ،آئرنگ وغیرہ کا پہننا جو مردوں کے لئے پہننا روانہیں ، عورتوں کے مردوں سے تشبہ سے
------------------------
(1) امداد الفتاوی 268/4 سوال نمبر345