جہاں تک لباس کی بات ہے ، لباس کے احکام میں چند خاص قیود وحدود کے ساتھ شریعت نے فراخی رکھی ہے ، ان حدودمیں ایک یہ بھی ہے کہ لبا س ایسا نہ ہو کہ دوسری قوموں کے ساتھ تشبہ نمایاں ہو، لہذا جب تک کوئی لباس کسی دوسری قوم کی طرف اس طرح منسوب نہ ہو کہ دیکھتے ہی یہ خیال ہو کہ فلاں قو م کا شخص ہے، اسی وقت تک اس میں تشبہ رہتا ہے ، ہندوستان کے ماضی قریب کے علماء کے فتاوی سے بھی اسکا اندازہ ہوتا ہے ، مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ لکھتے ہیں :
؛ مگر تشبہ کا حکم اسی صورت میں ہوتا ہے کہ دیکھنے والا اسے دیکھ کر اس شبہ میں پڑ جائے کہ یہ شخص اس قوم کا فرد ہے ، مثلا ہیٹ لگانیوالے کو کرسٹان سمجھا جائے : (1)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
؛من تشبہ بقوم فھو منھم : سے مراد یہ ہے کسی قوم کی ایسی چیز میں مشابہت اختیار کی جائے جو اس قوم کے ساتھ مخصوص ہو یا اس کا خاص شعار ہو تو ایسی مشابہت ناجائز ہے ؛ (2)
اسی اصول پر مسلم خواتین کیلئے ساڑی کے استعمال کے بارے میں فرماتے ہیں :
؛ جہاں مسلمان عورتوں کے اپنے لباس میں ساڑی داخل ہو وہاں جائز ہے اور جہاں غیر مسلمانوں میں ساڑی مروج نہ ہو صرف غیر مسلم عورتوں کے لباس میں داخل ہو وہاں مکروہ ہے ؛ (3)
مولانا تھانوی بھی لندن میں انگریزی لباس کے استعمال کے سلسلہ میں جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
--------------------
(1) کفایت المفتی 159/9 جواب نمبر196
(2) حوالہ سابق 160/9 جواب نمبر 209
(3) حوالہ سابق 161/9 جواب نمبر 211