مثل لبس النعال الریاق والمشی بھافی محافل الرجال ولبس الاردیۃ والطیالستہ والعمائم و نحوذلک مما لیس لھن استعمالہ (1)
مراد مثلاََ باریک جوتے پہن کر مردوں کی محفلوں میں چلنا اور رومال و عمامہ وغیرہ کا استعمال ہے جو ان (عورتوں ) کا لباس نہیں۔
اسی طرح ایسا بھی ممکن ہے کہ بعض علاقوں میں عورتوں اور مردوں کے لباس کی وضع میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ان کے لباس میں یہ تشبہ کراہت کے دائرہ میں نہیں آئے گی، حافظ ابن حجر علامہ طبری سے نقل کرتے ہیں:
فاماھیئۃ اللباس فتختلف باختلاف عادۃ کل بلد، فرب قوم لا یفترق زی نسائھم من رجالھم فی اللبس، لٰکن یمتاز النساء بالاجتجاب والاستِتار (2)
لباس کی وضع ہر علاقہ کے رواج کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے ، بعض اقوام میں مردوں اور خواتین کے لباس کی وضع میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا ، عورتیں پردہ و حجاب سے ممتاز ہوتی ہیں۔
فقہاء کی عبارتوں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے لباس میں تشبہ کو معمولی درجہ کا تشبہ سمجھا ہے اور اگر صاحبِ لباس نیت کے اعتبار سے مخلِص ہو تو لباس کے ظاہری تشبہ کو قابلِ عفو سمجھا ہے، چنانچہ شامی نے تشبہ فی اللباس کے بارے میں لکھا ہے: تزول الکراھۃ باخلاص النیۃ لا ظھار نعمۃ اللہ تعالیٰ (3)
پس حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے لباس میں ممکن حد تک غیر مسلموں اور فاسِق و فاجر کی مخصوص وضع سے احتراز کرنا چاہیئے، نیزمرد و عورت کے لباس اور ان کی وضع قطع میں بھی امتیاز باقی رہنا چاہیئے، نیز اپنے زمانہ کے صالحین اور دیندار لوگوں کی وضع اپنانی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وباللہ التوفیق۔
-------------------------------------
(1) عینی علی البخاری 41/22باب المتشبہون بالنساء الخ۔
(2) فتح الباری 408/10 باب المتشبہون بالنساء و المتشبہات بالرجال۔
(3) شامی 228/5۔