ایک حقیقت ہے کہ ایک قوم کا دوسری قوم سے ہر چھوٹی بڑی بات میں ممتاز ہونا اور تشبہ سے مکمل طور پر مجتنب ہونا عادتاً ممکن نہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ تشبہ کی ایسی حدیں مقرر کی جائیں جن کے ذریعہ احکام متعین کئے جا سکیں کہ کن امور میں اور کس درجہ کا تشبہ ناجائز ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ان میں ظاہر ہے کہ تشبہ کی سب سے بدترین قسم وہ ہے جو دینی اور مذہبی شعائر میں ہو، یہ بہر طور حرام ہے مثلًا ہندوؤں کی طرح قشقہ لگانا، سکھوں کی طرح ہاتھ میں بالے پہننا یا مخصوص انداز کی پگڑی باندھنا، عیسائیوں کی طرح سینے پر صلیب لٹکانا یا اس کے متبادل ٹائی کا استعمال کرنا، برہمنوں کی طرح زنّار پہننا وغیرہ ۔۔۔اور شریعت میں اس کی دلیلیں اس کثرت سے ہیں کہ محتاج بیان نہیں، یہودیوں اور عیسائیوں کے طریقہ سے ہٹ کر نماز کے لئے اذان کی مشروعیت، ان اوقات میں نماز کی کراہت جو بت پرست اور آفتاب پرست قوموں کی عبادت کے ہیں، یوم عاشوراء میں ایک روزہ کے اضافے کی تلقین کہ یہود سے تشبہ نہ ہو اور اس طرح کے دوسرے احکام خود اسی اصل پر مبنی ہیں کہ مذہبی شعائر اور عبادات میں وہ دوسروں سے ممتاز رہیں ۔ملّا علی قاری کا خیال ہے کہ جس تشبہ سے منع کیا گیا ہے اس کا تعلق ہے ہی شعائر سے قلت بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير. (۱)
جہاں تک معاشرتی اور سماجی زندگی اور باہمی تعلقات کی بات ہیں اس میں بھی اسلام کا منشأ ہے کہ مسلمان اپنے طور و طریق سے ممتاز رہیں، مثلًا سلام میں یہودیوں اور عیسائیوں کے تشبہ سے روکا گیا ۔۔۔۔پس ایسی چیزیں کہ جن کے لئے شریعت نے خود اس کے لئے اپنے اصول و قواعد ذکر کر دیئے ہیں جیسے کھانا پینا، داڑھی موچھ، آداب ملاقات، ان امور میں اسلامی طریقہ کو نظر انداز کرکے کسی خاص قوم کی وضع کو اختیار کر لینا مکروہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)حاشیہ ابو داؤد ۲/۵۵۹ بحوالۂ مرقاۃ