اب صحابہ بطور خاص نماز کے وقت شراب سے احتیاط برتتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خصوصیت سے شراب کی قباحتوں اور اس کے مذموم اثرات کا پاس و خیال تھا اس لئے دیا کرتے تھے کہ بار الہا! شراب کے بارے میں واضح حکم فرما دیجئے أللهم بین لنا فی الخمر بیانا شافیا۔ چنانچہ تیسرے مرحلے میں شراب کی حرمت کا صریح حکم نازل ہو گیا اور اس وضاحت کے ساتھ کہ اس کو نجاست بھی قرار دیا گیا ، عمل شیطانی بھی، باہمی بغض عداوت کا باعث بھی، اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنے کا زریعہ بھی اور پھر آخر آخر مسلمانوں سے عہد لیا گیا کہ کیا تم اس سے باز رہو گے؟ فھل انتم منتھون (1)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿المائدة:٩١﴾
اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو، شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان عداوت اور بغض پیدا کردے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے۔ سو اب بھی باز آؤ گے ؟
افسوس کہ قرآن کے اتنے مؤکد بیان کے باوجود محض اس بنا پر کہ قرآن میں شراب کے لیے صریحاً حرام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بعض اہل ہوس شراب کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ علاوہ قرآن کے اس طاقتور بیان کے کثرت سے حدیثیں شراب کی حرمت پر ناطق ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے (2) لیکن اہل ایمان کےلیے یہ باعث حیرت نہیں۔ اس سے اس کے ایمان
---------------------------------------------
(1) قرطبی 286/6 ، مجمع الزوائد 51/5 (2) قرطبی 288/6