اور کتے جتنے شکار کو زخمی کریں گے سبھی حلال ہو جائیں گے۔ اس کے برخلاف ذبح اختیاری میں بسم اللہ کا تعلق فعلِ ذبح سے ہے۔ مشہور فقیہ ابن نجیم کہتے ہیں "لان التسمیۃ فی الزکاۃ الاختیاریۃ مشروعۃ علی الذبح لا علی اٰلتہ و فی الذکاۃ الاضطراریۃ التسمیۃ علی الاٰلۃ لا علی الذبیحۃ۔" (البحر الرائق ۸/۱۶۸)۔
دوسرے یہ کہ چوں کہ ذبح اختیاری میں بسم اللہ کا تعلق فعلِ ذبح سے ہوتا ہے، اس لئے اگر بالتعاقب فعل ذبح پایا جائے یعنی ایک جانور کو لٹایا، اس کو ذبح کیا پھر دوسرے جانور کو لٹایا اور اس کو ذبح کیا تو اب ایک ہی بسم اللہ اس دوسرے جانور کے حلال ہونے کے لئے کافی نہ ہو گا، بلکہ دوبارہ بسم اللہ کہنا ضروری ہو گا۔ اور اگر ایک ساتھ چند بکریوں کو ایک دوسرے پر لٹا دیا اور ایک ہی بسم اللہ سے ذبح کرتے چلے گئے تو وہ سب حلال ہو جائیں گے، گویا فعل ذبح میں تکرار ہو تو بسم اللہ میں بھی تکرار ضروری ہو گا اور فعل ذبح ایک ہی ہو تو گو ذبیحہ متعدد ہوں، ایک ہی تسمیہ سب کے لئے کافی ہو گا۔ صاحبِ درمختار نے اس نکتہ کو واضح کیا ہے "لواضجع شاتین احد اھما فوق الاخریٰ فذبحھما ذبحۃ واحدۃ بتسمیۃ واحدۃ حلا بخلاف مالو ذبحھما علی التعاقب لان الفعل یتعدد فتتعدد التسمیۃ۔" (در مختار ۵/۱۹۲)
تیسرے اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ذبح کا وہ مسلسل عمل جس میں بلا انقطاع چھرا حرکت کرتا رہتا ہے اور مرغیاں اس کی زد میں ائیں اور ذبح ہوتی چلی جائیں، ایک ہی فعلِ ذبح ہے، اس کا اندازہ در مختار کی مذکورہ بالا عبارت جس میں ایک سے زیادہ جانوروں کے ذبح کو ایک ساتھ حلال قرار دیا گیا ہے، کے علاوہ عالمگیری کی اس عبارت سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوتا ہے کہ اِصرار اور چھرے کی مرور حرکت کی کیفیت کو فعل ذبح قرار دیا گیا ہے اور جب تک امرار کی اس