کیفیت میں انقطاع نہ پیدا ہوا ہو اس کو ذبح واحد کے حکم میں رکھا گیا ہے، چنانچہ کہا گیا :لواضجع احدی الشاتین علی الاخری تکفی تسمیۃ واحدۃ اذا ذبحھا بامرار واحد ولو جمع العصافیر فی یدہ فذبح رسمّی و ذبح علیٰ اثرہ ولم یسم لم ٰیحل الثانی ولو امرّ السّکین علی الکل جاز بتمیۃ واحدۃ (ہندیہ ۵/۲۸۹)
ان تینوں قواعد کو پیشِ نظر رکھا جائے تو مشینی ذبیحہ کا حکم اس طرح نکلتا ہے کہ :
۱ – بسم اللہ کہہ کر بٹن دبانے والے شخص نے کسی خاص مرغی پر تسمیہ نہیں کہا، بلکہ مشین کے ذریعہ صادر ہونے والے مسلسل فعلِ ذبح پر تسمیہ کہا ہے اور ذبح اختیاری میں تسمیہ کا تعلق فعلِ ذبح ہی سے ہوتا ہے۔
۲ – مشین کا عمل جب تم متواتر چلتی رہے، امرار واحد اور ذبحِ واحد کے حکم میں ہے۔
۳ – لہذا گو مرغیوں کی تعداد کتنی بھی ہو جائے، ان سب کا ذبح ایک ہی فعلِ ذبح کے تحت انجام پایا ہے اور اس لئے ایک ہی تسمیہ سب کے لئے کافی ہے، ہاں اگر درمیان میں مشین رک گئی یا بند ہو گئی تو دوبارہ مشین چلاتے ہوئے پھر سے تسمیہ ضروری ہو گا۔
یہ ساری تفصیلات ان فقہاء کی رائے پر مبنی ہیں جو ذبح کرتے وقت تسمیہ کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن امام شافعی جن کے نزدیک مسلمان کے لئے تسمیہ کہنا ضروری نہیں کہ بسم اللہ اس کے دل میں موجود ہے، کے یہاں تو یہ ذبیحہ کسی تردد و اضطراب کے بغیر حلال ہو گا ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مسئلہ گو اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک نیا مسئلہ ہے لیکن ہندوستان کے موجودہ بعض اکابر علماء نے بھی اس مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس کو جائز قرار