اول یہ کہ ذابح کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ---------- سوال یہ ہے کہ ایک شخص بٹن دبانے کے بعد الگ ہو جائے اور مشین چلتی رہے اور اپنا کام کرتی رہے تو کیا مشین کے ذریعہ ذبح ہونے والے تمام ذبیحوں کی نسبت اسی ذابح کی طرف ہو گی، اس کو یوں سمجھئے کہ مشین بلا واسطہ فعلِ ذبح انجام دے رہی ہے اور فقہ کی اصطلاح میں وہ اس فعل کے لئے "مباشرہ" ہے۔ بٹن دبانے والے کی حیثیت "متسبب" کی ہے، مباشر مکلف ہو تو فعل کی نسبت اسکی طرف ہوتی ہے اور اگر مکلف یعنی احکام کے مخاطب قرار پانے کا اہل نہ ہو تو اس فعل کی نسبت متسبب کی طرف جاتی ہے، اس لیے بٹن دبانے والے ہی کو ذابح تصور کیا جائے۔
اب صرف ایک مسئلہ باقی رہتا ہے کہ کیا آن (ON) کرنے والے کا بسم اللہ کہنا اس سب مرغیوں کے لیے کافی ہو جائے گا جو بٹن آف (OFF) کرنے تک مشین کے ذریعہ ذبح ہوتی چلی جائیں؟ یہ اہم مسئلہ ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے پہلے ذبح کی بابت چند قواعد پیش نظر رکھنے چاہییں۔
اول یہ کہ فقہاء کے اصول اور شریعت کی نصوص کے مطابق ذبیحہ کے اعتبار سے ذبح کی دو قسمیں ہیں۔ ذبح اختیاری اور ذبح اضطراری ------------------ جانور قابو میں ہو تو اس کو ذبح کرنا ذبح اختیاری ہے۔ جانور قابو میں نہ ہو تو اس کو ذبح کرنا ذبح اضطراری ہے، جیسے شکار پر تیر پھینکنا یا تربیت یافتہ کتے چھوڑنا۔
یہ بات ظاہر ہے کہ سوال میں ذبح کی جو صورت دریافت کی گئی ہے اس کا تعلق ذبح اختیاری سے ہے نہ کہ ذبحہ اضطراری سے ---------- ذبح اختیاری اور ذبح اضطراری کے درمیان فقہاء نے جن احکام میں فرق کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ذبح اضطراری میں "بسم اللہ" کہنے کا تعلق آلہء ذبح سے ہوتا ہے۔ اگر کسی نے بسم اللہ کہہ کر تیر پھینکا یا کتے دوڑائے تو وہ تیر جتنے شکار کو لگے گا