نظم کیا ہے، اس کی نوعیت یہ ہے کہ بٹن دبانے کے ساتھ ہی آلۂ ضرب جو دھار دار چھرے کی شکل میں ہوتا ہے حرکت کرنے لگتا ہے۔ مشینوں کے ذریعہ مرغیوں کو پکڑا جاتا ہے کہ اس کے پاؤں بندھ جاتے ہیں اور نیچے کی جانب سے اس کی گردن عین اس آلہ کی دھار پر آ جاتی ہے اور جانور ذبح ہو جات اہے۔ واضح ہو کہ ایک دفعہ بٹن آن (ON) کرنے کے بعد پھر دوبارہ جب تک بٹن آف (OFF) نہ کیا جائے، مشین اپنا کام کرتی رہتی ہے اور مرغیاں ذبح ہوتی رہتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح برقی پنکھا ایک دفعہ چلائے جانے کے بعد از خود چلتا ہے تاآنکہ پنکھا بند کر دیا جائے۔
ہاں اس موقع سے ذبح سے پہلے مرغیوں کو معمولی صدمات بھی پہنچائے جاتے ہیں، البتہ اس کے باوجود مرغی کو کامل ہوش ہو حواس باقی رہتا ہے۔ عام طور پر سر کا حصہ جسم سے بالکل منقطع نہیں ہوتا، ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بعض مرغیاں اس طرح چھرے کے سامنے آتی ہیں کہ بجائے گردن کے ان کی چونچ کٹ جاتی ہے اور وہ مرغیوں کے ساتھ نیچے دب کر مر جاتی ہیں۔
یہ بات بھی طے کی گئی ہے کہ ایسی مرغیوں کوجن پرذبح کا عمل مکمل نہ ہو سکا ہو ان کو الگ کر دیا جائے اور مذبح کا یہودی مالک جو ان مرغیوں کا مالک ہو گا اسے غیر مسلموں کو فروخت کر دے۔ بٹن دبانے والا مسلمان ہو گا اور بسم اللہ کہہ کر بٹن دبائے گا۔
پس کیا مشینی ذبیحہ کی یہ صورت امریکہ جیسے ملک میں جہاں کچھ رواجی اور کچھ قانونی محرکات کی وجہ سے مشینی ذبیحہ ہی عام ہے اور اسی کا گوشت کھایا جاتا ہے، درست ہو گا اور ذبیحہ کے سلسلہ میں وارد احکامِ شرعیہ کی اس کے ذریعہ تکمیل ہوسکے گی یا نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ فقط۔