زیر بحث نہیں آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غالبا انہی وجوہ کے تحت ڈاکڑ قرضاوی کی کتاب کے بعد عالم عرب میں مختلف اہل علم نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور بعضوں نے خاص طور پر قرضاوی صاحب کی بعض آراء کی تردید اور تنقید پر رسائل تصنیف کئے ،اس سلسلہ میں صالح فوزان کی الاعلام بنقد کتاب الحلال والحرام ـ؛ خود راقم سطور کی نظروں سے گذری ہے
میرا خیال ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر جو تحریریں مرتب ہوں ،ان میں فقہ وقانون کی خشکی کے ساتھ دعوت وتذکیر کی حلاوت اور چاشنی بھی ہو کہ اصل مقصود عمل کی ترغیب ہی ہے وہ اسی طور حاصل ہوسکتا ہے ،مسائل واحکام بیان کرتے ہوئے ترغیبی وتہدیدی آیات وروایات ذکر کی جائیں ،حکم کی ظاہری مصلحت اور حکمت بیان کی جائے ،زبان واسلوب موثر ہو تو فائدہ زیادہ ہوتا ہے ،امام غزالی رحمہ اللہ اپنی ٌٗ احیاء العلوم " اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تالیف حجتہ اللہ البالغہ میں نیز امام ابن تیمیہ نے اپنی تحریروں میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اور اس سے قوم وملت کو جو فائدہ پہنچا وہ محتاج اظہار نہیں۔
اردو زبان میں ایک ایسی کتاب کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی جس میں ایسے ضروری اور کثیر الوقوع مسائل جمع کر دئیے جائیں کہ اس میں کتاب وسنت کی نصوص اور فقہاء کے اجتہادات دونوں سے فائدہ اٹھایا جائے ،زبان شستہ اور عام فہم ہو،تحریر میں تذکیر اور دعوت کا رنگ اور دعوت کا رنگ بھی نمایاں ہو،حوالہ جات کا اہتمام ہو اور مآخذ سے براہ راست مراجعت کی جائے ، آداب واذکار بھی ذکر کئے جائیں
پیش نظر کتاب اسی ضرورت کی تکمیل ہے ،مسائل کے احاطہ ،حوالہ جات کے اہتمام،زبان کی حلاوت اور شائستگی ،اسلوب تحریر میں نصح وتذکیر کا غلبہ اور مسائل کے بیان کرنے میں اور قابل بحث امور پر اظہار رائے میں اعتدال وتوازن