احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کہ ربوہ میں ہوتا ہے۔ اس طرح سرکاری کاغذات میں زمین اصل مالکان کے نام ہی رہتی ہے۔ حالانکہ وہ اسے فروخت کر کے لاکھوں روپیہ ہضم کر چکے ہوتے ہیں۔ اس عیاری پر پردہ ڈالنے کے لئے خلیفہ ربوہ نے مہاجرین قادیان کو چکمہ دے کر کہ قادیان ’’خدا کے رسول کا تخت گاہ‘‘ ہے۔ (نعوذ باﷲ) اور انہیں اس بستی میں واپس جانا ہے۔ انہیں قادیان کے مکانوں کا کلیم داخل کرنے سے منع کردیا اور خود چار کروڑ روپے کا بوگس کلیم داخل کر دیا۔ اب اگر مرید بھی کلیم داخل کر دیتے تو حکومت اور مریدوں سے دہرے فراڈ کی قلعی کھل سکتی تھی۔ اس لئے مریدوں کوکلیم داخل کرنے سے منع کردیا گیا۔ مگر بہت سے شاطر مرید اس عیاری کو سمجھ گئے اور انہوں نے خود بھی بے پناہ بوگس کلیم داخل کئے اور پھر قادیانی اثر ورسوخ سے منظور کروائے۔ اگر حکومت صرف قادیانیوں کی پاکستان میں جعلی اور بوگس الاٹمنٹوں کی تحقیقات کروائے تو کروڑوں روپے کے فراڈ کا پتہ لگ سکتا ہے اور مؤلف کتاب ہذا بعض جعلی کلیموں کے نمبر تک حکومت کو مہیا کرنے کا پابند ہے۔ ۳… ربوہ کی زمین صدر انجمن احمدیہ کو کراؤن لینڈ ایکٹ کے تحت علامتی قیمت پر دی گئی تھی۔ مرزامحمود نے یہاں بھی قادیان والا کھیل دوبارہ کھیلا اور ٹوکن پرائس پر حاصل کردہ اس زمین کو ہزاروں روپیہ مرلہ کے حساب سے مریدوں کے نام فروخت کیا۔ مگر رجسٹریشن ایکٹ کے ماتحت سب لیز ہولڈرز کے نام زمین منتقل نہ ہونے دی۔ اس طرح مریدوں کا لاکھوں روپیہ بھی جیب میں ڈالا اور گورنمنٹ کے لاکھوں روپیہ کے ٹیکس بھی ہضم کئے گئے۔ مریدوں پر الٹا رعب بھی قائم رہا کہ وہ زمین خریدنے کے باوجود مالکانہ حقوق سے محروم رہے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی نے خاندان نبوت کی عیاشیوں اور بدمعاشیوں کے متعلق آواز بلند کی، اسے اپنی ریاست سے باہر نکال دیا اور قبائلی نظام کے مطابق اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ اب جو مرید ایک نبی کے انکار کی وجہ سے ساری ملت اسلامیہ کو کافر قرار دے کر علیحدہ ہوئے ہیں۔ وہ اپنی مخصوص Conditioning اور لایعنی علم الکلام کی وجہ سے واپس امت مسلمہ کے سمندر میں تو نہیں آسکتے۔ وہ اسی گندے اور متعفن جوہڑ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس لئے ایسے مریدوں سے سچائی کی توقع عبث ہے۔ ۴… الف… ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے کے سلسلہ میں سب سے پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ ربوہ کی لیز فوراً ختم کی جائے۔