احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کیوں نہ قواعد بنائے جاتے۔ یہ اس شخص کے تقدس کا حال ہے کہ جو خود کو فضل عمر کہتا ہے… ’’یہی حال ہماری جماعت کے لوگوں کا ہے کہ غریب ہوتے ہیں۔ گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے اتنا چندہ لے لیا جائے۔ بعض اوقات عورتیں آجاتی ہیں کہ یہ چار انڈے ہیں۔ انہیں بیچ کر جو کچھ ملے چندہ میں دے دیں۔ اب انڈے بیچنے والی کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ ایک یا دو مرغیاں انہوں نے رکھی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ مرغیاں ایک دو انڈے دے دیتی ہیں اور وہ ان انڈوں کو بھی چندہ میں دے دیتی ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۵۶ء مندرجہ الفضل مورخہ ۱۲؍دسمبر ۱۹۵۶ء) یہ ہیں یورپ کے شاہانہ ہوٹلوں کے طواف کرنے والے پیر اور انڈے بیچ کر چندہ دینے والے مریدوں کا حال۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم خلیفہ صاحب کی مالی درازدستیوں کی داستان بخوف طوالت بیان نہیں کر سکتے۔ ورنہ یہ داستان بھی ہوش ربا ہے۔ یہ شخص غریب قوم کے بل بوتے پر شاہانہ زندگی بسر کرتا ہے اور ساتھ کے ساتھ یہ فسوں بھی کرتا جاتا ہے کہ میں فضل عمر ہوں۔ غرض ان لوگوں کی گمراہی وسرکشی کا کوئی ایک پہلو نہیں۔ مذہبی نقاب کے پیچھے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور نعروں اور ریزولیوشنوں کا شور برپا ہے۔ حال ہی میں حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کے کانٹے کو اس بری طرح سے اپنی راہ سے دور کیاگیا ہے کہ دنیا حیران ہے۔ اس ضمن میں خلیفہ کی گوہر افشانی کی ایک ادنیٰ مثال ملاحظہ ہو۔ ’’کیا ایسے خبیثوں کا ہم ادب کریں گے یا ان کا مقابلہ کریں گے۔ ہم نے ان کے باپ کو اس لئے مانا تھا کہ وہ مسیح موعود کا غلام تھا۔‘‘ (خطبہ جمعہ مورخہ ۲۷؍جولائی مندرجہ الفضل مورخہ ۲؍اگست ۱۹۵۶ء) گویا خلیفہ نے خلیفہ اوّل کی اولاد اور اپنے حقیقی سالوں کو خبیث کہہ کر مسیح موعود کے مندرجہ بالا بیان کو پورا کر دیا کہ میرا قبیلہ خبث اور عناد میں بڑھ جائے گا۔ جب خلافت کی گدی پر قبضہ رکھنے کے لئے بلائے دمشق کا اپنے قریب ترین رشتہ داروں اورخلیفہ اوّل کی اولاد سے یہ سلوک ہے تو دوسرے لوگوں سے جو سلوک کیا جاتا ہوگا اس کا اندازہ قارئین کر لیں۔ ہم ان سادہ لوح مخلصین کو بھی جن کو اپنے اخلاص پر ناز ہے دعوت دیتے ہیں کہ وہ خلیفہ کی کسی کارستانی پر تنقید کر کے دیکھ لیں۔ انجام وہی ہوگا جو دوسروں کا ہوا ہے۔ وہی خطبے، وہی گالی گلوچ، وہی جلسے، وہی نعرے، وہی ریزولیوشن، وہی ہنگامہ برپا کیا جائے گا جو کہ اب یہ سادہ لوح مخلصین کار ثواب سمجھ کر