احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
۶… ۵؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو مرزاقادیانی کی نسبت الہام ہوا۔ وہ بالکل جھوٹا ہے۔ ۷… ۲۴؍ستمبر صبح ۴؍بجے کے قریب۔ (۱)فتح محمد خاں کی طرف سے ایک خط آیا ہے۔ اس کی پیشانی پر لکھا ہے: ’’حکم حاکم سے۔‘‘ میں اوّل تو پیشانی دیکھ کر بہت ڈرا کہ یہ کیا فوجداری معاملہ ہے۔ مگر جب اس کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ میری نسبت بہت تعریفی الفاظ ہیں۔ (۲)ایک جگہ چارپائی پر میں پڑا ہوں اور ڈپٹی نصراﷲ خان میرے سراھنے کی طرف بیٹھے اور مجھ سے نسخہ پوچھتے ہیں۔ میں گویا بخار میں مبتلا اور حالت ضعف میں ہوں اور جواب نہیں دیتا۔ تب حکیم عبدالرحمن نے جو میرے داہنی طرف پائنتی کی طرف بیٹھے تھے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا کہ بخار ہے اور کہا کہ میں آپ کے واسطے نسخہ لکھ دوں۔ میں نے کہا اچھا لکھ دو۔ منگوا لیا جائے گا۔ اتنے میں ایک شخص کہتا ہے کہ آپ کے مکان کی چھت پر دہنکری نے ایک سانپ مارا ہے۔ یہ سن کر میں ایک لکڑی لے کر اس کے مارنے کے واسطے بھاگا اور اوپر چڑھا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ سانپ حرکت کر رہا ہے۔ تب قریب پہنچ کر میں ے اسے لکڑی سے چھینتنا شروع کیا۔ پھر اس سانپ کے چند ٹکڑے ہو گئے۔ مگر تب بھی وہ بولتا اور شور کرتا رہا۔ ایک ٹکڑا اچھل کر اڑا۔ میں نے لکڑی سے مار کر اسے ایک طرف پھینک دیا۔ پھر وہ اچھا۔ پھر لکڑی سے اسے ایک طرف پھینک کر چھیتنا شروع کیا۔ دل میں یہ بھی خیال ہے کہ کہیں یہ اڑ کر کاٹ نہ لے۔ مگر جب اس ٹکڑے کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس میں اس کا سر نہیں ہے۔ ۸… خواب والدہ مبارک احمد۔ ایک مکان ہے اس کے بائیں طرف ایک چبوترہ چونہ کا عمدہ سا بنا ہوا ہے۔ سانپ والی عورت سانپ لئے بیٹھی ہے۔ مبارکہ بھی دیکھنے گئی۔ جب مجھے خبر ہوئی کہ مبارکہ گئی ہوئی ہے تب میں نے اسے بلوانا چاہا۔ تب میری ممانی خورد نے کہا کہ وہ سانپ کاٹتا نہیں اسے تو سانپ والی گلے میں ڈالتی ہے اور ہاتھ میں پکڑتی ہے۔ میں نے مبارکہ کو بلوالیا۔ پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ پھر انہوں نے کہا کہ آج تو سانپ کو پکاؤ۔ میں نے کہا کہ سانپ والوں کی تو یہ کمائی ہے۔ وہ پکانے کے واسطے کیوں دیوے گی۔ خیر اتنے میں وہ سانپ والی عورت سانپ لے کر ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی کہ سانپ پکا لو۔ بہت عمدہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا سانپ میں تو زہر ہوتا ہے۔ میں نہیں پکاتی۔ اس نے کہا کہ زہر تو پونچھ میں ہوتی ہے۔ خیر وہ یہ کہہ کر چاقو لے کر اسے کاٹنے لگی اور اسے اس کا نام لے کر بلاتی جاتی تھی جو کہ میرے یاد نہیں رہا اور کہتی تھی کہ خوب ہوشیاری سے لے پھر وہ کاٹ کر جب قریب سر کے آئی۔ میں نے کہا مجھے ڈر لگتا ہے۔ پھر سانپ والی نے اس کا منہ کھولا۔ اس کی زبان منہ تک نکلی ہوئی