احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
پارسل نمبر۲۳۵، قیمتی پانچ روپیہ بتاریخ ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۴ء پارسل نمبر۸۵۵، قیمتی دس روپیہ تین آنہ بتاریخ یکم؍جنوری ۱۹۰۵ء ہر دو پارسل آپ کو بتاریخ ۸؍جنوری ۱۹۰۵ء کو ادا کئے گئے۔ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ صادق کا جھوٹ تو خود اس کی تحریر میں دیکھ لو اور محمد افضل کا پوسٹ ماسٹر جنرل صاحب کی تصدیق سے۔ یہ ہر دو مرزائی تعلیمات کے پھیلانے کے ذمہ دار وجود ہیں۔ میں نے صادق مرتد کے نام پوسٹ ماسٹر جنرل صاحب کی تصدیق بھیج کر لکھا کہ آپ معذرت کے ساتھ اس کو شائع کر دیں۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ لائے بل کے واسطے یہ معاملہ کیسا صاف ہے۔ مگر جوا بے ندارد۔ ایک الحکم کا بھی قول صادق سنئے۔ ۷؍نومبر ۱۹۰۶ء کو مرزاقادیانی کے کلمات اخبار البدر میں حسب ذیل شائع ہوئے۔ ’’آج رات لنگر خانہ کے اخراجات کی نسبت میں قریباً ۱۲بجے رات کے اپنے گھر کے لوگوں سے بات کر رہا تھا کہ اب خرچ ماہواری لنگر خانہ کا پندرہ سو سے بھی بڑھ گیا ہے۔ کیا قرضہ لے لیں۔‘‘ مگر ۱۷؍جنوری کا اخبار الحکم یہ لکھتا ہے کہ ’’کسی صورت میں لنگر خانہ کا خرچ تین ہزار روپیہ ماہوار سے کم نہیں۔‘‘ سالانہ جلسہ کے اخراجات کے لئے الحکم ۱۷؍دسمبر ۱۹۰۶ء میں کم از کم ڈیڑھ ہزار روپیہ علیحدہ طلب کیا۔ اب نہ معلوم پیر سچا ہے یا مرید؟ مگر دیانت وامانت اور صفائی حساب میں دونوں کامل ہیں۔ یہ کسی نے نہیں بتلایا کہ سال بھر میں مہمانوں کی اوسط کیا ہے۔ جس کے واسطے بقول پیر ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار سے زیادہ چاہئے اور بقول مرید تین ہزار سے زیادہ اور سالانہ جلسہ کے لئے ڈیڑھ ہزار علیحدہ۔ کیا کوئی مرزائی سچ بولنے کا حوصلہ کر کے البدر یا الحکم کے ذریعہ شائع کر سکتا ہے کہ سال گذشتہ میں مہمانوں کی اوسط یومیہ کیا رہی۔ ریویو آف ریلیجنز کے دو جھوٹ بھی قابل بیان ہیں۔ اوّل: تو یہ کہ میری نسبت شائع کیا کہ پٹیالہ میں بھی ایک جھوٹا نبی ظاہر ہوا ہے۔ جس کا نام عبدالحکیم خاں ہے۔ (میگزین دسمبر ۱۹۰۶ء) امیر حبیب اﷲ خان شاہ افغانستان کے ایام سیاحت میں محمد علی ایم۔اے نے شائع کیا کہ امیر صاحب مرحوم نے ملّا عبداللطیف کو محض اس بنا پر قتل کرایا کہ وہ گورنمنٹ برطانیہ کا وفادار اور جہاد کا مخالف تھا۔ یہی سفید جھوٹ مرزاقادیانی نے البدر مورخہ ۹؍مئی ۱۹۰۷ء میں شائع کیا اور اسی کا اعادہ باربار حقیقت الوحی میں کیا ہے۔