احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
ہیں اور وہ خود ہی ناظم قضا یا رجسٹرار مقرر کرتے ہیں اور اس کا عزل اور ترقی بھی خود ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ربوہ سپریم کورٹ کے جج یا اپیل بورڈ کے ممبران کی نامزدگی بھی خلیفہ خود کرتے ہیں اور وہ جس مرحلہ پر چاہیں مقدمہ کی مسل اپنے ملاحظہ کے لئے طلب کر لیتے ہیں اور جس جج کو چاہیں مقدمہ سننے کا نااہل قرار دے دیتے ہیں۔ ایسے مقدمات میں جو وکیل پیش ہوتے ہیں انہیں ناظم ہذا سے باقاعدہ اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بغیر خلیفہ کی عدالتوں میں کسی وکیل کو حکومت کے اجازت نامہ کے باوجود پیش ہونے کا حق نہیں دیا۔ خلیفہ کا یہی ناظم قضا یا رجسٹرار مقدمہ مختلف قاضیوں کے سپرد کرتا ہے اور فیصلوں کی نقول مہیاکرنے پر جو آمدنی ہوتی ہے۔ اس کو داخل خزانہ کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ سلسلہ احمدیہ کے فرائض دربار قضا اور فیصلہ تنازعات کی ادائیگی کے لئے یہی محکمہ قضا ہے۔ اس میں ناظم کا یہ کام بھی ہوتا ہے کہ احمدیوں کے تنازعات کے فیصلوں کے لئے مناسب انتظام کرے۔ اس کو حسب ضرورت خلیفہ کے ایماء سے قاضی اور قاضی القضاء مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ آخری اپیل خلیفہ کے پاس ہوتی ہے۔ (الفضل مورخہ ۶؍جنوری ۱۹۲۱ء) قاضی سلسلہ سمن جاری کرنے کا مجاز ہے۔ نوٹس بھی دیتا ہے۔ ڈگریوں کااجراء بھی کرایا جاتا ہے۔ یک طرفہ اور ضابطہ کی کاروائیاں بھی یہاں ہوتی ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو: نوٹس: بنام شیخ منظور احمد۔ مدعی: مستری بدرالدین معمار ساکن قادیان۔ بنام: شیخ منظور احمد ولد شیخ محمد حسین مرحوم۔ دعویٰ: اجراء ڈگری مبلغ۔ مقدمہ مندرجہ عنوان میں موکل قضا کے ۴؍اگست ۱۹۳۳ء کو یک طرفہ ڈگری کر دی تھی۔ مدعی نے امور عامہ میں اجرا ڈگری کی درخواست ۱۴؍اگست ۱۹۳۳ء کو دی۔ لہٰذا آپ کو بذریعہ اخبار نوٹس دیا جاتا ہے کہ مندرجہ بالا ۲۴؍دسمبر ۱۹۳۳ء تک دفتر امور عامہ میں جمع کروایں تو بہتر ورنہ آپ کے خلاف ضابطہ کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ (الفضل مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۳ء) اس سمن کے بارہ میں سنئے: ’’ملک عبدالحمید ولد غلام حسین محلہ دارالرحمت قادیان کے خلاف چند مقدمات برائے ڈگری دائر ہیں۔ کئی دفعہ ان کے نام علیحدہ علیحدہ ومقدمات میں