احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کر آپ راکب ہوگئے۔ جماعت کو اس کا احساس تک نہ ہوا کہ ان کے خلیفہ صاحب اپنی رنگین بیانیوں سے عمل کے فقدان کا مداوا کر رہے ہیں۔ چونکہ خلیفہ صاحب پر کوئی ضابطہ نافذ نہ تھا۔ انہوںنے وقتی مصلحتوں کے پیش نظر عقائد سے بھی تلعب شروع کر دیا۔ مثلاً غلبہ حاصل کرتے ہی مسیح موعود پر دعویٰ نبوت کا افتراء باندھا اور ان کی نبوت کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس سے انہوں نے اپنی خلافت تو بنالی۔ لیکن مسلمانوں کو کافر کہہ کر اور ان سے عمرانی روابط منقطع کر کے مسیح موعود کے اسلام افروز پیغام کے آگے اپنی تخلیقات کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ غیرفطری عقائد کے نفاذ کے لئے انہوں نے ایک آہنی نظام برپا کیا۔ جماعت کے افراد کی عقول وقلوب پر اپنی تعزیرات کے قفل لگادئیے۔ معمولی انحراف پر شدید سزائیں دیں۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں قادیانی احمدی جماعت سے خارج کر دئیے گئے کہ انہوں نے کسی مسلمان کاجنازہ پڑھایا۔ کسی غیراحمدی رشتہ دار سے رشتہ ناطہ کیا۔ اس قسم کے مقاطعہ سے ارباب پیغام صلح بھی نہ بچ سکے۔ حالانکہ وہ مسیح موعود کے حلقہ بگوش اور سربکف خدّام تھے۔ ان کے متعلق مسیح موعود سے دوری کے افسانے تراش کر جماعت کو ان سے ایسا متنفر کیا کہ وہ عملاً ان کو غیراحمدیوں سے بھی زیادہ برا سمجھنے لگے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ حضرت مولوی محمدعلی کی وفات کی خبر ’’الفضل‘‘ نے ایک تاریک گوشے میں نہایت بے رغبتی سے شائع کی۔ لیکن مولوی ظفر علی خاں کی وفات کی خبرکو نمایاں جگہ ملی اور اس وفات پر یہ کہہ کر ماتم کیاگیا کہ مولوی ظفر علی خاں کی موت سے پنجاب کی علمی ادبی اور ثقافتی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ختم ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہ باب مسیح موعود کے خلاف شدید اور غلیظ دشنام سے لبریز ہے۔ خلیفہ صاحب اپنے مریدوں سے یہ توقع کرتے تھے کہ وہ ان کی تعلیم پر اپنا تن من دھن قربان کر دیں۔ لیکن جب خلیفہ کے لئے امتحان کا وقت آیا کہ وہ اپنی عناد انگیز تعلیم کے لئے کیا قربانی کرتے ہیں تو وہ ۱۹۵۴ء میں منیر ٹربیونل کے سامنے اپنی تعلیم کی بنیادی باتوں سے بھی منحرف ہوگئے۔ تکفیر مسلمین سے انکار کیا اور اعلان کیا کہ مسیح موعود کا ماننا جزو ایمان نہیں ہے۔ مسلمانوں کے جنازوں میں شرکت کی ممانعت سے بھی منحرف ہو گئے اور ٹربیونل کے سامنے اعلان کیا کہ وہ اس امتناع کی نظر ثانی کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ قریباً نصف صدی سے ارباب ’’پیغام صلح‘‘ کو اس بات پر مطعون کرتے تھے کہ وہ مسلمانوں کو کافر کیوں نہیں کہتے اور ان کے جنازوں میں شرکت کو ممنوع کیوں نہیں سمجھتے۔