تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کوفہ میں کچھ لوگ ایسے تھے‘ جو مختار کے ہاتھ پر اس کی حکومت سے پہلے ہی بیعت کر چکے تھے‘ وہ اس کے ہم عقیدہ و ہم خیال تھے ان کے ساتھ مختار بڑی بڑی رعایتیں کرتا تھا‘ کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف اس کی حکومت کو تسلیم کر کے بیعت اطاعت کی تھی‘ وہ اس کے ہم خیال اور خون حسین کے مطالبہ میں اس کے ہم نوا نہ تھے‘ انہیں کو مختار سے شکایات تھیں۔ چنانچہ شیث بن ربعی کے واپس آنے پر ان لوگوں نے مختار کے خلاف ہجوم کیا اور دارالامارۃ میں پہنچ کر مختار سے کہا کہ ہم نے تم کو معزول کر دیا‘ تم حکومت چھوڑ کر الگ ہو جائو‘ کیوں کہ تم محمد بن حنفیہ کے نائب اور خلیفہ نہیں ہو‘ مختار نے اس وقت بڑی چالاکی اور دور اندیشی سے کام لیا‘ لوگوں کو سمجھایا کہ میں تم پر کوئی سختی نہیں کرنا چاہتا‘ میں نے تم سب کو خون حسین رضی اللہ عنہ بھی معاف کردیا‘ ہر قسم کی رعایت بھی تم کو دی جائے گی‘ اس وقت بنو امیہ کا مقابلہ درپیش ہے‘ تم کو چاہیئے کہ ایسے وقت میں فتنہ و فساد برپا نہ کرو‘ ورنہ نتیجہ اچھا نہ ہو گا‘ جائو سوچو اور خوب غور کرو‘ کہ تم جس کام پر آمادہ ہوئے ہو وہ تمہارے لیے اچھا نتیجہ پیدا نہ کرے گا۔ ان لوگوں کے سرداروں نے اس وقت مختار کی ان باتوں کو منظور کرلیا‘ اور کہا کہ اچھا ہم غور کریں گے‘ ان کا مدعا یہ تھا کہ ابراہیم بن مالک جو کوفہ سے روانہ ہوا ہے دور چلا جائے اور ہمارے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ ادھر مختار نے بھی ابراہیم کی غیر موجودگی میں اپنی بے بسی کو محسوس کر لیا تھا‘ لہٰذا اس نے فوراً ایک تیز رفتار سانڈنی پر اپنا قاصد ابراہیم کے پاس بھیجا کہ فوراً اپنے آپ کو کوفہ میں واپس پہنچائو‘ اور خود دارالامارۃ میں مضبوطی کر کے بیٹھ گیا‘ لوگوں نے اگلے روز دارالامارۃ کا محاصرہ کر لیا‘ تیسرے روز ابراہیم راستے سے لوٹ کر کوفہ میں معہ اپنی فوج کے داخل ہوا اور ان لوگوں کو جو مختار کی مخالفت میں اٹھے تھے‘ قتل کرنا شروع کیا‘ غرض کوفہ میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس سے ایک دو یا زیادہ آدمی قتل نہ کئے گئے ہوں۔ مختار نے لوگوں کو جمع کر کے ان تمام لوگوں کی فہرستیں مرتب کرائیں جو ابن زیاد کے لشکر میں قتل حسین رضی اللہ عنہ کے وقت موجود تھے‘ یا جنہوں نے کسی قسم کا کوئی حصہ میدان کربلا میں لیا تھا‘ عمرو بن سعد اور شمر ذی الجوشن بھی گرفتار ہو کر مقتول ہوئے‘ عمرو بن سعد نے مختار سے امن حاصل کر لیا تھا‘ لیکن مختار نے اپنے قول و اقرار کا لحاظ نہ کر کے اس کا سر اتروا لیا‘ عمرو بن سعد کا لڑکا حفص بن عمرو مختار کی مصاحبت میں تھا‘ جس وقت عمرو بن سعد کا سر دربار میں آیا تو مختار نے حفص بن عمرو سے کہا کہ تم اس کو پہچانتے ہو‘ کس کا سر ہے‘ حفص نے کہا کہ ہاں میں پہچانتا ہوں‘ لیکن اب اس کے بعد زندگی کا لطف جاتا رہا‘ مختار نے اسی وقت حکم دیا کہ حفص کا سر بھی کاٹ لو۔ چنانچہ حفص کا بھی سر اتار لیا گیا‘ غرض اس قتل و گرفتاری کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا‘ لوگ گھروں سے گرفتار ہو کر آتے تھے‘ اور قتل کئے جاتے تھے‘ عمروبن سعد اور شمر وغیرہ کے سر مختار نے محمد بن حنفیہ کے پاس مدینہ بجھوا دیئے تھے۔ مختار بہت ذی ہوش اور چالاک آدمی تھا‘ اس نے کوفہ پر قابض و متصرف ہو کر ایک خط سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو لکھا‘ کہ میں دارالامارۃ کوفہ میں آج کل مقیم ہوں‘ مجھ کو دل سے آپ کی اطاعت منظور اور آپ کی خلافت تسلیم ہے‘ آپ کوفہ کی گورنری مجھ کو عطا کر دیجئے‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سمجھ گئے‘ کہ یہ مجھ