تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قبائل نے بیعت کر لی۔ اس بیعت کے بعد مروان بن حکم اپنی جمعیت کو لے کر مرج راہط کی طرف بڑھا اور ضحاک بن قیس کے مقابل جا کر خیمہ زن ہوا‘ مروان کے پاس کل تیرہ ہزار جنگ جو تھے‘ ادھر ضحاک کے پاس اس سے چوگنی جمعیت فراہم ہو چکی تھی‘ طرفین نے اپنے اپنے میمنہ و میسرہ کو درست کر کے لڑائی کا سلسلہ شروع کیا‘ بیس روز تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا‘ مگر کوئی فیصلہ کن جنگ نہ ہوئی‘ آخر عبیداللہ بن زیاد نے مروان بن حکم کو اپنی فوج کی قلت کی طرف توجہ دلا کر مشورہ دیا کہ دشمنوں پر شب خون مارنا چاہیئے۔ چوں کہ بیس روز سے طرفین برابر صف آراء ہوتے رہے تھے اور کسی نے کسی پر شب خون مارنے کا ارادہ نہیں کیا تھا‘ لہٰذا ضحاک اور ان کی فوج بے فکر تھی‘ اس پر مستزادیہ کہ مروان نے دن میں ضحاک کے پاس صلح کا پیغام بھیج کر استدعا کی کہ لڑائی کو بند کر دیجئے اور شرائط صلح کے طے ہونے تک کوئی کسی پر حملہ آور نہ ہو‘ اسی قرارداد کے موافق لڑائی بند ہو گئی۔ غروب آفتاب کے بعد جب رات شروع ہوئی‘ تو ابن زیاد کی تجویز کے موافق شب خون کی تیاری ہونے لگی‘ اور وہاں بالکل فارغ و مطمئن ہو کر ضحاک اور ان کی فوج مصروف خواب ہوئی‘ آدھی رات کے وقت انہوں نے کئی جانب سے حملہ شروع کیا‘ اس اچانک حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنو قیس کے اسی سردار اور بنو سلیم کے چھ سو آدمی مقتول ہوئے‘ ضحاک بن قیس بھی کام آئے‘ اور بقیۃ السیف جس طرف کو منہ اٹھا بھاگ نکلے۔ یہ لڑائی در حقیقت بنو کلب اور بنو قیس کی لڑائی تھی‘ ان دونوں قبیلوں میں عہد جاہلیت سے رقابت چلی آتی تھی‘ اسلام نے اس رقابت کو بھلا دیا تھا اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں قبیلوں سے بڑی قابلیت کے ساتھ کام لیا اور ان کی آپس کی رقابتوں کو دبائے رکھا تھا‘ یزید کی شادی بھی انہوں نے بنو کلب میں اسی لیے کی تھی کہ ایک زبردست قبیلے کی حمایت اس کو حاصل رہے‘ بنو قیس کی تعداد بنو کلب سے بھی زیادہ تھی‘ ان کی مدارات و دل جوئی کا بھی خاص طور سے لحاظ رکھا جاتا تھا‘ یہی دونوں قبیلے ملک شام کی سب سے بڑی طاقت سمجھے جاتے تھے‘ جس طرح سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بنو امیہ اور بنو ہاشم کی دیرینہ رقابت پھر تازہ ہو گئی تھی‘ اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بنو قیس اور بنو کلب کی فراموش شدہ رقابت از سر نو بیدار ہو گئی‘ اورجنگ مرج راہط نے اس رقابت کو تادیر اور ہمیشہ باقی رہنے والی عداوت و دشمنی کی شکل میں تبدیل کر کے مقاصد اسلامی کو عالم اسلام میں سخت نقصان پہنچایا۔ جس زمانے میں معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد دمشق میں انتخاب خلیفہ کے متعلق اختلاف آراء اور بنو کلب و بنو قیس کے درمیان رقابتیں آشکارا ہونے لگی تھیں‘ تو مروان بن حکم نے یہ دیکھ کر کہ عراق و مصر اور شام کا بھی بڑا حصہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کو تسلیم کر چکا ہے ارادہ کیا کہ دمشق سے روانہ ہو کر مکہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کر لے اور خلافت تسلیم کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائے‘ چنانچہ جامع دمشق میں جب لوگوں کے اندر فساد برپا ہوا‘ تو مروان بن حکم بنو امیہ کی خلافت سے قطعاً مایوس ہو کر مکہ کے سفر کا سامان درست کر چکا تھا‘ کہ اتنے میں عبیداللہ بن زیاد دمشق میں وارد ہوا اور مروان بن حکم