تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نمایاں کر دیا ہے‘۱؎ لیکن اسی کے ساتھ اگر ہمیں تحقیق حق منظور ہے تو سکون قلب کے ساتھ واقعات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش میں ہمت نہیں ہارنی چاہیئے‘ اور غور کرنا چاہیئے‘ کہ ان تمام مظالم اور ناشدنی برتائو کے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدان کربلا میں ہوئے اصل محرکات کیا تھے؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی تحریک پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد بنایا‘ ورنہ اس سے پہلے ان کو اس کا خیال بھی نہ گزارا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے خلیفہ بنانے کی تمنا کریں‘ سب سے پہلے اس تجویز کو مغیرہ رضی اللہ عنہ ہی نے کوفہ میں پروان چڑھایا‘ لیکن بنیادی طور پر یہ تجویز چوں کہ خلافت راشدہ کی سنت کے خلاف اور اسلامی جمہوریت کی روح کے منافی تھی‘ اس لیے اسی وقت مدینہ منورہ میں اس کی مخالفت شروع ہوئی‘ چنانچہ سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ضض‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ‘ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی شدت سے مخالفت کی۔ مروان نے جب اس مسئلہ کو مدینہ میں صائب الرائے اور سنجیدہ حلقوں کے سامنے رکھا تو ہر طرف سے اس کی مخالفت شروع ہوئی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر نے صاف لفظوں میں کہا‘ کہ ہمارے لیے خلیفہ کے انتخاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے طریقے سوا اور کوئی طریقہ پسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنھما نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امیر معاویہ نے جوانتخاب کا طریقہ اختیار کیا ہے‘ یہ سنت خلفاء راشدین نہیں‘ بلکہ یہ تو قیصر و کسریٰ کا طریقہ ہے‘ جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ انتخاب مسلمانوں کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ بربادی کے لیے ۱؎ ذاتی طور پر خلیفہ یزید میں بہت سی خامیاں ہوں گی۔ سوائے انبیاءo کے کون ان خامیوں‘ کوتاہیوں سے بچا ہے۔ کسی میں کم ہوتی ہیں اور کسی میں زیادہ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یزید کی حیثیت خلیفہ کی تھی اور اس کی (معروف میں) اطاعت مسلمانوں پر فرض تھی۔ کیا گیا ہے‘ کیوں کہ اس طرح تو خلافت اسلامیہ قیصر و کسریٰ کی سلطنت سے مشابہ ہو جائے گی کہ باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہو۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان صاحبان بصیرت کو راضی کرنے کے لیے یہاں تک کہلایا کہ آپ حضرات اس کو محض خلیفہ مان لیں‘ باقی تمام ملک کا نظم و نسق‘ عہدہ داروں کا تقرر و تبدل اور دوسرے انتظام مملکت وہ سب آپ حضرات ہی کے مشورے سے ہو گا‘ لیکن اس پر بھی ان میں سے کوئی تیار نہیں ہوا۔ اس دور کے عوام کے جذبات اور یزید کے کردار کا اندازہ اس سے کیجئے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کے نام ایک عام حکم جاری کیا کہ لوگوں سے یزید کی خوبیاں بیان کرو‘ اور اپنے اپنے علاقوں کے بااثر لوگوں کا ایک ایک وفد میرے پاس بھیجو کہ میں بیعت یزید کے متعلق لوگوں سے خود بھی گفتگو کروں‘ چنانچہ ہر صوبے سے جو وفد آیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے الگ الگ بھی گفتگو کی‘ اور پھر سب کو ایک مجلس میں جمع کر کے ایک خطبہ دیا جس میں خلفاء کے فرائض‘ حقوق حکام کی اطاعت اور عوام کے فرائض بیان کر کے یزید کی شجاعت‘ سخاوت‘ عقل و تدبیر