تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کاموں کو تباہ کر رہا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ کسی دوسرے کو عامل بنا‘‘۔ اس خط کے پڑھنے سے یزید بہت متاثر ہوا‘ اس نے سمجھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا دل میری طرف سے صاف ہے اور وہ ہرگز میرے مخالف نہیں ہیں‘ اس سے پیشتر چوں کہ مروان بن حکم بھی ولید کی شکایت میں اس قسم کے الفاظ لکھ چکا تھا‘ اس لیے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے خط کی نسبت یزید کو کسی بدگمانی کا موقع نہیں مل سکتا تھا‘ لہٰذا اس نے فوراً ولید بن عتبہ کو معزول کر کے اس جگہ اپنے دوسرے چچا زاد بھائی عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ کا حاکم بنا کر بھیج دیا۔ عثمان بن محمد نے مدینہ میں آکر مے خواری شروع کر دی‘ جس سے لوگ بہت ہی ناخوش ہوئے‘ عثمان محرم ۶۲ھ میں مدینہ کا عامل مقرر ہو کر آیا۔ چند روز کے بعد اس نے شرفائے مدینہ میں سے دس شخص انتخاب کر کے یزید کے پاس دمشق کی جانب بھیجے‘ اس وفد میں منذر بن زبیر اور عبداللہ بن حنظلہ‘ عبداللہ بن عمرو بن حفص بن مغیرہ بھی شامل تھے‘ یہ لوگ جب دمشق پہنچے تو یزید نے ان کی خوب خاطر مدارات کی اور اول الذکر دونوں شخصوں کو ایک ایک لاکھ اور باقی آٹھ شخصوں کو دس دس ہزار درہم انعام دے کر رخصت کیا‘ انہوں نے دمشق میں یزید کو بھی گانے بجانے کی محفلیں برپا کرتے اور خلاف شرع کاموں میں مصروف دیکھا تھا۔ واپسی میں سب نے ارادہ کیا کہ یزید کی خلافت کے خلاف کوشش کرنی چاہیئے‘ دمشق سے نو شخص تو مدینہ کی طرف واپس آئے تھے اور ایک شخص منذر بن زبیر کوفہ کی طرف چلے گئے تھے۔ کیوں کہ عبیداللہ بن زیاد اور منذر بن زبیر کے درمیان دوستی تھی۔ انہوں نے عبیداللہ کی ملاقات کے لیے کوفہ کا عزم کیا تھا‘ جب عبداللہ بن حنظلہ معہ ہمرائیوں کے مدینہ میں آئے تو لوگ حالات معلوم کرنے کی غرض سے ان کے گرد جمع ہو گئے۔ مدینہ میں پہنچ کر عبداللہ نے کہا کہ یزید ہر گز مستحق خلافت نہیں کیوں کہ وہ خلاف شرع کاموں میں مصروف دیکھا جاتا ہے‘ اس کے مسلمان ہونے میں بھی کلام ہے‘ اس سے تو مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیئے‘ اہل مدینہ نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ یزید نے آپ کو خوب انعام و اکرام دیا ہے‘ عبداللہ نے کہا کہ ہم نے اس لیے قبول کر لیا کہ ہم میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی‘ ان باتوں کو سن کر لوگ یزید سے بے حد متنفر ہو گئے۔ عبداللہ بن حنظلہ نے تجویز پیش کی کہ یزید کو معزول کر دیا جائے‘ چنانچہ قریش نے عبداللہ بن مطیع اور انصار نے عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا اپنا سردار منتخب کر کے یزید کی خلافت و حکومت کا انکار کر دیا۔ عثمان بن محمد بن مروان بن حکم اور تمام بنی امیہ جن کی تعداد مدینہ میں ایک ہزار کے قریب ہو گی یہ رنگ دیکھ کر کچھ تو مدینہ سے باہر چلے گئے‘ اور کچھ مروان بن حکم کی حویلی میں پناہ گزین ہوئے‘ اہل مدینہ نے تمام بنو امیہ کو جو ان کے ہاتھ آئے گرفتار و قید کر لیا‘ صرف مروان کے بیٹے عبدالملک کو جو سیدنا سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ فقیہ مدینہ کی خدمت میں ہمہ وقت موجود رہتا اور مسجد سے باہر کم نکلتا تھا اور بہت ہی عابد و زاہد اور نیک سمجھا جاتا تھا کچھ نہیں کہا۔ ان حالات کی اطلاع بنی امیہ نے یزید کے پاس دمشق پہنچائی‘ یزید نے فوراً ایک خط عبیداللہ بن زیاد کو لکھا کہ منذر بن زبیر رضی اللہ عنہ تمہارے پاس کوفہ میں گیا ہوا ہے فوراً اس کو گرفتار کر کے قید رکھو اور مدینہ کی طرف ہر گز نہ جانے دو۔ عبیداللہ بن