تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
معلوم ہے کہ میں زیاد بن ابی سفیان کا بیٹا ہوں‘ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں آئے ہوئے ہیں میں اب کوفہ کو جا رہا ہوں‘ وہاں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور جن لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے‘ سب کو قتل کر ڈالوں گا اور اگر تمام کوفہ بیعت کر چکا ہے‘ تو ایک شخص کو بھی وہاں زندہ نہ چھوڑوں گا‘ تمہارے ساتھ اس وقت یہ رعایت کرتا ہوں‘ کہ بجز حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے قاصد کے اور کسی کو کچھ نہیں کہتا‘ لیکن یہاں سے میرے جانے کے بعد اگر کسی نے ذرا بھی کان ہلایا تو پھر اس کی خیر نہ ہو گی‘‘۔ یہ کہہ کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قاصد کو بلایا اور اس کو تمام مجمع کے روبرو قتل کرا دیا‘ کسی نے اف تک نہ کی اس کارروائی کے بعد مطمئن ہو کر وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوا‘ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں بیٹھے ہوئے یہ خیال کر رہے تھے کہ بصرہ میں بھی ہمارے نام پر بیعت ہو رہی ہو گی‘ لیکن یہاں ان کافرستادہ قتل کیا جا رہا تھا۔ عبیداللہ بن زیاد نے قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر اپنی رکابی فوج کو وہیں چھوڑا‘ اور خود اپنے باپ کے آزاد کردہ غلام کے ساتھ ایک اونٹ پر سوار ہو کر کوفہ کی جانب تیز رفتاری سے روانہ ہو کر مغرب و عشاء کے درمیان کوفہ میں داخل ہوا‘ عبیداللہ بن زیاد نے عمامہ حجازیوں کی وضع کا باندھ رکھا تھا‘ یہاں لوگوں کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی آمد کا انتظار تھا‘ شیعان علی رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کا یہاں تک زور ہو گیا تھا‘ کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ شام ہی سے اپنے دیوان خانے کا دروازہ بند کر لیتے اور اپنے خاص خاص آدمیوں کے ساتھ مجلس گرم کرتے۔ دروازے پر غلام کو بٹھا دیتے‘‘ کہ ہر آنے والے کا نام و پتہ معلوم کرنے کے بعد اگر وہ اندر آنے کے قابل ہو‘ تو دروازہ کھولے ورنہ انکار کر دے۔ عبیداللہ بن زیاد جب کوفہ میں داخل ہوا تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ جن کا انتظار تھا کوفہ میں آگئے‘ جس طرف عبیداللہ کا اونٹ گذرتا‘ لوگ کہتے السلام علیک یا ابن رسول اللہ‘ عبیداللہ اپنا اونٹ لیے سرکاری دیوان خانے تک پہنچا‘ وہاں دیکھا تودروازہ بند ہے عبیداللہ نے دروازہ کھٹکھٹایا‘ اور زبان سے کچھ نہ کہا‘ نعمان بن بشیر اپنے دوستوں کے ساتھ چھت پر بیٹھے ہوئے تھے‘ وہ اٹھے اور چھت کے کنارے پر آکر دیکھا‘ تو چوں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا تمام شہر میں انتظار کیا جا رہا تھا‘ وہ عبیداللہ کو یہی سمجھے کہ امام حسین آگئے ہیں‘ چنانچہ انہوں نے اوپر ہی سے کہا کہ ’’اے ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ واپس چلے جائیے‘ اور فتنہ برپا نہ کیجئے‘ یزید ہر گز کوفہ آپ کو نہ دے گا۔ نعمان کے دوستوں نے جو چھت پر بیٹھے تھے‘ نعمان سے کہا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتنی بے مروتی نہ کیجئے‘ کم از کم دروازہ کھول کر ان کو اندر آنے کی اجازت دیجئے‘ کیوں کہ وہ سفر سے آرہے ہیں اور سیدھے آپ کے مہمان بن کر آئے ہیں‘ نعمان نے کہا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ نعمان کے عہد حکومت میں کوفہ کے اندر حسین رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے‘ عبیداللہ نے اپنا عمامہ اتارا اور کہا کم بخت دروازہ تو کھول‘ عبیداللہ کی آواز سن کر لوگوں نے اس کو پہچانا‘ دروازہ کھولا اور سب ادھر ادھر منتشر ہو گئے‘ عبیداللہ اندر داخل ہوا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد عبیداللہ کا لشکر کوفہ میں داخل ہونا شروع ہوا جس کو وہ پیچھے چھوڑ آیا