تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بن ارسلان چند روز تو قزل ارسلان کی کفالت و نگرانی میں رہا‘ پھر اس سے علیحدہ ہو کر امراء کو اپنے ساتھ ملا کر بعض شہروں پر قابض ہو گیا‘ چنانچہ قزل ارسلان اور طغرل میں متعدد لڑائیاں ہوئیں‘ رفتہ رفتہ طغرل کی قوت بڑھتی گئی اور قزل ارسلان کمزور ہوتا گیا‘ قزل ارسلان نے دربار خلافت میں عرضی بھیجی اور اطاعت و فرما نبرداری کا اقرار کر کے طغرل کی طاقت کے بڑھتے جانے سے دربار خلافت کے لیے بھی اندیشہ پیدا ہو جانے کے امکان کا اظہار کیا۔ خلیفہ ناصرلدین اللہ نے سلاطین سلجوقیہ کے محلوں کو جو بغداد میں بنے ہوئے تھے مسمار و منہدم کرا دیا اور ابو المظفر عبیداللہ بن یونس کو قزل ارسلان کی مدد کے لیے معہ لشکر روانہ کیا‘ عبیداللہ ابھی قزل ارسلان تک نہیں پہنچنے پایا تھا کہ ۱۸ ربیع الاول ۵۸۴ھ کو بمقام ہمدان طغرل سے مقابلہ ہو گیا‘ سخت لڑائی ہوئی‘ طغرل نے فتح پائی اور عبیداللہ گرفتار ہو گیا‘ بقیہ لشکر نے بغداد آ کر دم لیا‘ مگر اس کے بعد قزل ارسلان اور طغرل کی لڑائی ہوئی تو قزل ارسلان نے طغرل کے لشکر کو شکست دے کر طغرل کو گرفتار کر لیا اور قلعہ میں نظر بند کر دیا‘ اس کے بعد قزل ارسلان ہمدان‘ رے‘ اصفہان‘ وغیرہ کل صوبوں پر استقلال کے ساتھ حکومت کرنے لگا‘ اور اپنے نام کا سکہ‘ خطبہ جاری کیا‘ ۵۸۷ھ میں طغرل بحالت قید قتل کر دیا گیا اور دولت سلجوقیہ کا خاتمہ ہو گیا‘ جس حکومت و سلطنت کو طغرل بیگ نے قائم کیا تھا اس کا خاتمہ بھی اسی نام کے سلطان یعنی طغرل بیگ پر ہوا۔ ۵۸۵ھ میں امیر عیسیٰ والی تکریت فوت ہوا تو اس کے بھائیوں نے تکریت پر قبضہ کیا‘ خلیفہ ناصر نے ایک فوج بھیج کر تکریت پر اپنا قبضہ کیا اور امیر عیسیٰ کے بھائیوں کو جاگیریں دے دیں‘ ۵۸۶ھ میں اسی طرح شرعانہ پر قبضہ کیا اور وہاں کے امیروں کو جاگیریں دیں‘ اس کے بعد ۵۹۱ھ میں خلیفہ ناصر نے خوزستان کی طرف فوجیں بھیج کر اس ملک پر بھی قبضہ کیا اور اپنی طرف سے طاشتگین بن بحیر الدین کو خوزستان کی حکومت پر مامور کیا۔ ان ایام میں رے پر قتلغ بن بہلوان بن ایلذکز حکومت کر رہا تھا‘ خورارزم شاہ نے قتلغ کو شکست دے کر بھگا دیا اور اس علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا‘ موید الدین ابو عبداللہ محمد بن علی جس نے خوزستان کو خلیفہ کے حکم کے موافق فتح کر کے طاشتگین کے سپرد کر دیا تھا‘ اپنی فوج لیے ہوئے روانہ ہونے کو تھا کہ قتلغ بن بہلوان اس کے پاس پہنچا اور رے کی طرف فوج کشی کرنے کی ترغیب دی‘ موید الدین قتلغ کے ہمراہ ہمدان کی طرف گیا‘ جہاں خوارزم شاہ کا بیٹا لشکر لیے ہوئے پڑا تھا‘ وہ موید الدین کی خبر سن کر رے کی جانب چلا گیا اور موید الدین نے ہمدان پر بآسانی قبضہ کر لیا‘ پھر وہ ہمدان سے رے کی طرف روانہ ہوا‘ ابن خوارزم رے کو بھی چھوڑ کر چل دیا‘ موید الدین نے رے پر بھی قبضہ کر لیا اور رفتہ رفتہ اس تمام علاقے پر قابض ہو گیا جو قتلغ کے قبضہ میں پہلے تھا۔ خوارزم شاہ نے اول ایک ایلچی موید الدین کے پاس بھیجا اور کہا کہ اس ملک سے اپنا قبضہ اٹھا لو‘ مگر موید الدین نے کہا کہ یہ ملک خلیفہ ناصرلدین اللہ کی فوج نے فتح کیا ہے ہرگز واپس نہ ہو گا‘ خوارزم شاہ نے ایک زبردست فوج لے کر ہمدان پر حملہ کیا‘ اسی اثناء میں ماہ شعبان ۵۹۲ھ موید الدین کا انتقال ہو گیا مگر اس کی فوج نے خوارزم شاہ کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ آخر بغداد کی فوج کو افسر کے نہ ہونے کی وجہ سے شکست