تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ۴۹۰ھ میں سلطان برکیارق نے سلطان سنجر کو خوزستان کی حکومت سپرد کی تھی‘ جب سلطان محمد اور سلطان برکیارق میں مخالفت اور لڑائی ہوئی تو سلطان محمد نے اپنے حقیقی بھائی سنجر کو خراسان کی حکومت سپرد کر دی‘ اسی وقت سے سلطان سنجر کے قبضے میں خراسان کا ملک برابر رہا اور ان کو سلطان محمد کے بیٹے سلطان العراق کے نام سے یاد کرتے رہے۔ ۵۳۶ھ میں ترکوں کے ایک گروہ نے جو ترکان خطا کے نام سے موسوم تھا‘ ماوراء النہر کے علاقہ کو خوانین ترکستان سے چھین لیا‘ سلطان سنجر نے اس گروہ خطاء کو ماوراء النہر سے نکالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا اور بہت سے کار آزمودہ سردار اس لڑائی میں مقتول ہوئے۔ سلطان سنجر کے کمزور ہو جانے کے سبب اس کے ماتحت حکمرانوں نے زور پکڑا اور اسی سلسلہ میں خوارزم شاہ بھی خود مختار ہو گیا‘ ماوراء النہر میں جو ترک رہتے تھے اور ترکان غز کہلاتے تھے انھوں نے خراسان میں آ کر لوٹ مار اور بد امنی پھیلا دی۔ ۵۴۸ھ میں ان ترکوں اور سلطان سنجر کے درمیان لڑائی ہوئی جس میں سلطان سنجر کو شکست ہوئی اور گرفتار ہو گیا‘ ان نئے فاتحین نے سلطان سنجر کو قید کر کے اپنے ساتھ رکھا اور خراسان کے شہروں کو لوٹتے ہوئے پھرنے لگے اور ماوراء النہر میں ترکان خطا کو بھی شکستیں دینے لگے‘ ترکان غز نے سلطان سنجر کو قید کر کے ایک سائیس کے برابر اس کی تنخواہ مقرر کی تھی اور لطف یہ کہ تمام بلاد خراسان میں خطبہ سلطان سنجر ہی کے نام کا جاری رکھا تھا۔ ۵۵۱ھ میں سلطان سنجر قید سے نکل بھاگا اور ۵۵۲ھ میں بحالت ناکامی فوت ہوا‘ اس کے بعد خوارزم شاہ اور اس کی اولاد نے تمام خراسان پر قبضہ کر لیا اور اصفہان ورے کے صوبوں اور آل سبکتگین کے زیر اثر صوبوں پر بھی متصرف ہو گئے اور چنگیز خاں کے خروج تک قابض رہے غرض کہ خلیفہ مقتفی لامراللہ کے عہد میں دولت خوارزم شاہیہ کی بنیاد قائم ہوئی۔ ۵۴۹ھ میں خلیفہ مقتفی نے نورالدین محمود بن عمادالدین زنگی والی حلب کو مصر کی جانب جانے کا حکم دیا کہ وہاں عبیدی حاکم مصر کے پر اختلال کاموں میں دخیل ہو‘ اسی سال نورالدین محمود کو الملک العادل کا خطاب دیا گیا۔ سلیمان شاہ بن سلطان محمد اپنے چچا سنجر کے پاس رہتا تھا اس کو سلطان سنجر نے اپنا ولی بھی بنایا تھا‘ جب سلطان سنجر کو ترکوں نے گرفتار کر لیا تو سلیمان شاہ اس کے بقیہ لشکر کی سرداری کرنے لگا اور خراسان میں اپنے لیے کوئی مامن نہ دیکھ کر بغداد چلا آیا‘ ماہ محرم ۵۵۱ھ میں خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا‘ خلیفہ کی بیعت کی اور نائب السلطنت مقرر ہوا‘ اس کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھا گیا‘ ماہ ربیع الاول ۵۵۱ھ میں سلیمان شاہ بغداد سے بلاد جبل کی طرف روانہ ہوا۔ ماہ ذی الحجہ ۵۵۱ھ میں سلطان محمد نے والی موصل اور دوسرے سرداروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے بغداد پر چڑھائی کی اور شہر کا محاصرہ کر لیا‘ لشکر موصل قطب الدین کو اس کے بڑے بھائی نورالدین زنگی نے ملامتانہ خط لکھا کہ تم کو محاصرہ بغداد میں شریک نہیں ہونا چاہیئے تھا‘ اس لیے قطب الدین زنگی خلیفہ کے خلاف جنگ کرنے سے جی چرا رہا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ربیع الاول ۵۵۲ میں سلطان محمد محاصرہ اٹھا کر ہمدان کی طرف چلا گیا اور قطب الدین نے موصل کی طرف کوچ کیا۔ سلطان محمد بن محمود بن ملک شاہ محاصرہ بغداد کے بعد بعارضۂ سل بیمار ہو کر ہمدان