تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سکتا تھا‘ قتل کرنا شروع کیا‘ کئی سرداروں کو دھوکے سے قتل کرا دیا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بہت کمزور ہو گیا‘ بلاد جبل میں جا کر اس نے اقامت اختیار کی اور بغداد و عراق کو بد امنی کے عالم میں چھوڑ دیا‘ خلیفہ مقتفی نے اس حالت سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہیں کی یعنی خلیفہ نے اپنا اثر و اقتدار رفتہ رفتہ قائم کرنا اور اپنی طاقت کو بڑھانا شروع کیا۔ خلیفہ کی طاقت ادھر ترقی کر رہی تھی‘ ادھر سلطان مسعود اور سلطان سنجر کا اثر بتدریج کم ہو رہا تھا‘ سلطان سنجر نے مسعود کو ملامت آمیز خطوط لکھے اور امیروں کے قتل کرنے اور بغداد کے قیام کو ترک کر دینے کی خرابیاں سمجھائیں‘ آخر ۵۴۴ھ میں سلطان سنجر خود مقام رے میں آیا‘ یہیں سلطان مسعود بھی اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رجب ۵۴۴ھ میں ملک شاہ بن سلطان محمود نے بعض سرداروں کو ہمراہ لے کر بغداد پر چڑھائی کی‘ خلیفہ مقتفی نے شہر کی قلعہ بندی کر کے مدافعت کی اور سلطان مسعود کو طلب کیا‘ مگر سلطان مسعود رے میں اپنے چچا سنجر کے پاس تھا وہاں سے نہ آ سکا‘ ملک شاہ بغداد میں تو داخل نہ ہو سکا مگر نہروان کو خوب لوٹا اور ویران کر دیا‘ اس کے بعد ۱۵ شوال ۵۴۴ھ کو مسعود وارد بغداد ہوا‘ پھر ۵۴۵ھ میں ہمدان چلا گیا۔ یکم ماہ رجب ۵۴۷ھ کو سلطان مسعود نے وفات پائی اس کی جگہ سلطان مسعود کے وزیر خاص بیگ نے ملک شاہ بن سلطان محمود کو تخت نشین کیا مگر سلطان مسعود کے مرنے کے بعد خاندان سلجوقیہ کی حکومت بغداد سے جاتی رہی اور اس خاندان میں کوئی ایسا شخص نہ رہا جو امارت و سلطنت کے مرتبے کو قائم رکھ سکتا‘ اسی لیے سلطان مسعود کو خاندان سلجوقیہ کا خاتم سمجھا جاتا ہے‘ سلطان ملک شاہ نے تخت نشین ہوتے ہی ایک سردار کو حلہ پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا‘ اس نے حلہ پر قبضہ کر لیا شحنۂ بغداد مسعود جلال نامی نے حلہ جا کر ملک شاہ کے سردار کو قتل کر کے خود حلہ پر خود مختارانہ حکومت شروع کر دی۔ خلیفہ مقتفی نے خود فوج لے کر حلہ پر حملہ کیا اور فتح کر کے اہل حلہ سے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا اقرار لیا‘ اس کے بعد خلیفہ نے واسط پر حملہ کر کے اس کو اپنے قبضہ میں لیا اور ۱۰ ذیقعدہ ۵۴۷ ھ کو بغداد میں واپس آیا‘ ۵۴۰ھ میں خلیفہ نے اپنے وزیر زادہ اور امیر ترشک دونوں کو تکریت کی فتح کے لیے روانہ کیا‘ ان دونوں میں ناچاقی ہوئی‘ امیر ترشک نے وزیر زادہ کو اہل تکریت کے ہاتھوں میں گرفتار کرا دیا اور خود خراسان کی طرف راستے کے شہروں کو لوٹتا ہوا چل دیا۔ ۵۴۹ھ میں خلیفہ مقتفی نے خود تکریت پر چڑھائی کی‘ شہر کو فتح کر لیا مگر قلعہ تکریت فتح نہ ہوا‘ خلیفہ نے بغداد میں واپس آ کر اپنے وزیر کو قلعہ شکن منجنیقیں دے کر قلعہ تکریت کے فتح کرنے کو روانہ کیا‘ وزیر نے جا کر محاصرہ ڈالا‘ ادھر ارسلان بن طغرل بن سلطان محمد نے ایک فوج لے کر وزیر پر حملہ کیا‘ یہ خبر سنتے ہی خلیفہ مقتفی خود بغداد سے روانہ ہوا‘ مقام عقر بابل پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا‘ اٹھارہ دن کی لڑائی کے بعد خلیفہ کے لشکر کا اکثر حصہ فرار ہوا مگر خلیفہ بڑی بہادری کے ساتھ بقیہ لوگوں کو لیے ہوئے مقابلہ کرتا رہا حتی کہ خلیفہ کو فتح حاصل ہوئی‘ ارسلان بن طغرل اور اس کے ہمراہی سردار سب میدان چھوڑ کر بھاگ گئے‘ یکم شعبان ۵۴۹ھ کو خلیفہ بغداد واپس آیا‘ ۵۵۰ھ میں خلیفہ مقتفی نے وقوقا پر فوج کشی کی مگر چند روزہ محاصرہ کے بعد بغداد واپس آیا۔