تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں صلح کرا دی‘ سلطان محمود ماہ رجب ۵۱۴ھ میں بغداد واپس آ گیا اور سلطان مسعود پھر موصل میں حکومت کرنے لگا۔ ۵۱۵ھ میں سلطان محمود نے موصل کی حکومت آقسنفر برسقی کو دی اور مسعود کے پاس آذربائیجان کا صوبہ رہا۔ سلطان طغرل کا ذکر اوپر آچکا ہے‘ وہ سلطان محمود سے شکست کھا کر گنجہ میں چلا آیا تھا‘ ۵۱۶ھ میں سلطان محمود اور سلطان طغرل کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا‘ اس کے بعد سلطان محمود نے آقسنفر برسقی کو موصل کے علاوہ واسط کا علاقہ بھی جاگیر میں دے دیا‘ آقسنفر برسقی نے اپنی طرف سے قسم الدولہ عماد الدین زنگی بن آقسنفر کو واسط کی حکومت پر مامور کیا‘ ۵۱۷ھ میں سلطان محمود نے اپنے وزیر شمس الملک کو قتل کر دیا اور شمس الملک کے بھائی نظام الدولہ کو خلیفہ مسترشد باللہ نے اپنی وزارت سے معزول کیا۔ ماہ ذی الحجہ ۵۱۷ھ میں خلیفہ مسترشد باللہ نے خود فوج تیار کر کے دیبس بن صدقہ کی سرکوبی کے لیے بغداد سے کوچ کیا‘ موصل و واسط کی فوجیں بھی خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں‘ مقام مبارکہ میں لڑائی ہوئی‘ اس لڑائی میں عماد الدین زنگی بن آقسنفر والی واسط نے بڑی بہادری اور جان فروشی دکھائی اور خلیفہ نے فتح پائی‘ ۱۰ محرم ۵۱۸ھ کو خلیفہ مظفر و منصور بغداد میں داخل ہوا‘ یہ غالباً پہلی جنگ تھی جو عرصہ دراز کے بعد عباسی خلیفہ کی سپہ سالاری میں ہوئی‘ اس کے بعد معلوم ہوا کہ دیبس بن صدقہ بصرہ کو لوٹنا چاہتا ہے‘ چنانچہ عماد الدین زنگی بن آقسنفر بصرے کی حفاظت کے لیے مامور ہو کر روانہ ہوا اور دیبس وہاں سے ناکام و نامراد ہو کر ملک طغرل بن سلطان محمد کے پاس چلا گیا۔ اسی سال یعنی ۵۱۸ھ میں آقسنفر برسقی جو شحنہ عراق مقرر ہو چکا تھا اور موصل میں رومیوں کے حملوں کے روکنے کی تدابیر میں مصروف تھا‘ عماد الدین زنگی کو بصرہ کی حکومت سے اپنے پاس موصل میں طلب کیا۔ عماد الدین زنگی بصرہ سے روانہ ہو کر موصل تو نہیں گیا‘ بلکہ سلطان محمود کے پاس اصفہان پہنچا‘ سلطان محمود نے وہاں سے اس کو بصرہ کی سند حکومت دے کر بصرہ کی طرف واپس کر دیا۔ دیبس بن صدقہ جب سلطان طغرل کے پاس پہنچا تو اس نے اس کو اپنے مصاحبین میں داخل کر لیا۔ دیبس نے طغرل کو ابھار کر عراق پر چڑھائی کرا دی ۵۱۹ھ میں طغرل نے معہ دیبس مقام وقوقا میں پہنچ کر قیام کیا‘ یہ خبر سن کر خلیفہ مسترشد باللہ نے ۵ صفر ۵۱۹ھ کو فوج لے کر بغداد سے بغرض مقابلہ کوچ کیا نہروان میں سامنا ہوا‘ مگر دیبس اور طغرل دونوں خراسان میں سلطان سنجر کے پاس پہنچے۔ رجب ۵۲۰ھ میں یرتقش زکوی کوتوال بغداد سلطان محمود کے پاس اصفہان پہنچا اور کہا کہ خلیفہ مسترشد باللہ نے فوجیں مرتب کر لی ہیں اور سامان جنگ بھی کافی فراہم ہے اور مالی حالت بھی خلیفہ کی اچھی ہو گئی ہے‘ اندیشہ ہے کہ خلیفہ قابو سے نہ نکل جائے‘ یہ سن کر سلطان محمود نے فوجیں آراستہ کر کے خود بغداد کی جانب کوچ کیا‘ خلیفہ مسترشد باللہ نے جب یہ سنا کہ سلطان محمود بغداد کی جانب آ رہا ہے تو اس کو لکھا کہ تمہارے اس طرف آنے کی ضرورت نہیں ہے‘ تم دیبس وغیرہ کے سرکشوں کی سرکوبی کے لیے واپس جائو‘ اس سے سلطان محمود کا شبہ یقین کے درجہ کو پہنچ گیا‘ اور اس نے سمجھا کہ خلیفہ ضرور میرے اثر و اقتدار سے آزاد ہونا چاہتا ہے‘ چنانچہ وہ اور بھی تیزی سے بغداد کی جانب سفر طے کرنے لگا۔