تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الاعلان اپنے آپ کو پٹھان اور خان کہلانا شروع کر دیا ہے اور مال و دولت کی فراوانی نے ان کو اپنے اصلی نسب پر قانع نہیں رہنے دیا۔ چنانچہ کسی نجیب الطرفین پٹھان کی اب یہ مجال نہیں ہے کہ ان کو ان کا اصلی شجرہ نسب سنائے اور آج کل کی نئی پود کو سمجھائے کہ نجیب آباد میں کون اصلی پٹھان ہے اور کون نقلی‘ جب کہ ہم اپنی آنکھوں سے لوگوں کو اپنے نسب تبدیل کرتے اور دوسرے نسبوں میں شامل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو بویہ ماہی گیر کے بیٹوں کا دولت و حکومت کے رفیع مقام تک پہنچ کر اپنا سلسلہ نسب شاہان ایران سے ملا دینا ہم کو حیرت میں نہیں ڈال سکتا۔ ماکان بن کانی نے جب اہل ویلم کو اپنی فوج میں بھرتی کیا تو بویہ کے تینوں بیٹے بھی اس کی فوج میں بھرتی ہو گئے‘ جب ماکان کو ناکامی ہوئی اور اس کا کام بگڑ گیا تو اس کے بہت سے آدمی جدا ہو ہو کر مردادیح کے پاس چلے آئے‘ مردادیح نے ان لوگوں کی خوب قدر دانی کی اور ہر ایک کو اس کے مرتبہ سے زیادہ مناصب عطا کیے۔ انہیں لوگوں میں بویہ کے تینوں بیٹے بھی شامل تھے‘ انہوں نے اپنی خدمت گذاری‘ مستعدی‘ اور ہوشیاری سے مردادیح کی خدمت میں رسوخ حاصل کر لیا۔ اور مردادیح نے علی بن بویہ کو کرخ کی حکومت پر مامور کر کے روانہ کیا‘ علی بن بویہ کے ہمراہ اس کے دونوں چھوٹے بھائی حسن اور احمد بھی روانہ ہوئے‘ ان دنوں مردادیح کی جانب سے رے میں اس کا بھائی دشمگیر حکومت کر رہا تھا۔ وثمگیر نے حسین بن محمد عرف عمید کو اپنا وزیر بنا رکھا تھا‘ علی بن بویہ جب رے میں پہنچا تو اس نے عمید سے ملاقات کی اور ایک خچر بطور نذر پیش کیا‘ اس کے بعد کرخ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں جا کر حکومت کرنے لگا۔ مردادیح کو جب علی بن بویہ کہ اس طرح عمید سے ملنے اور نذر پیش کرنے کا حال معلوم ہوا تو اس کو شبہ گذرا کہ کہیں ماکان کے پاس سے آئے ہوئے سردار جن کو اچھے اچھے عہدے اور شہروں کی حکومت سپرد کر دی گئی ہے آپس میں کوئی سازش کر کے باعث تکلیف نہ ہوں‘ چنانچہ اس نے اپنے بھائی وثمگیر کو لکھا کہ ماکان کے پاس سے آئے ہوئے جن لوگوں کو اس طرف شہروں پر مامور کیا گیا ہے سب کو گرفتار کر لو‘ چنانچہ بعض تو گرفتار کر لیے گئے مگر علی بن بویہ کو جو کرخ پر قابض ہو چکا تھا فساد برپا ہونے کے اندیشہ سے گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ علی بن بویہ نے کرخ کے نواح میں کئی قلعوں کو مفتوح کیا‘ ان میں سے جو مال ہاتھ آیا وہ لشکریوں کو تقسیم کر دیا‘ اس سے سپاہیوں کو اس کے ساتھ محبت ہو گئی اور اس کا رعب و داب ترقی کرنے لگا‘ ۳۲۱ھ میں مردادیح نے ان سرداروں کو جو رے میں نظر بند تھے رہا کر دیا‘ وہ سب کرخ میں علی بن بویہ کے پاس چلے گئے‘ اس نے ان کی بہت خاطر مدارات کی۔ انہیں ایام میں ایک دیلمی سردار شیر زاد نامی معہ ایک جمعیت کے علی بن بویہ کے پاس آیا اور اس کو اصفہان پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ مردادیح کو جب معلوم ہوا کہ تمام دیلمیوں کا جماو‘ علی بن بویہ کے پاس ہو گیا ہے تو اس نے لکھا کہ ان تمام سرداروں کو جو رہا ہو کر گئے ہیں ہمارے پاس واپس بھیج دو۔ علی بن بویہ نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کیا اور شیر زاد کے ہمراہی میں اصفہان پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگا‘ اصفہان میں ان دنوں مظفر بن یاقوت اور ابو علی بن