تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملک کو چھین لے‘ مگر ہارون کو اسفار کے مقابلہ میں شکست ہوئی‘ اس کے بعد نصر بن احمد بن سامان نے اسفار کی سرکوبی کے لیے بخارا سے خود معہ فوج حرکت کی‘ اسفار نے اپنے قصور کی معافی چاہی اور خراج گذاری کا وعدہ کیا‘ نصر نے اس کی درخواست منظور کر کے صوبہ رے کی حکومت اس کے پاس رکھی اور خود بخارا کو لوٹ لیا۔ اسفار کے سرداروں میں مروادیح نے اور سرداروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے علم بغاوت بلند کیا‘ اسفار کو پکڑ کر قتل کر دیا اور ہمدان و اصفہان وغیرہ کو بھی فتح کر کے ایک وسیع ملک پر حکومت کرنے لگا‘ اور ماکان بن کانی کو بلا کر طبرستان و جرجان کی حکومت پر مامور کر دیا‘ پھر ماکان کو اس حکومت سے معزول کر دیا‘ ماکان ویلم چلا گیا اور وہاں سے جمعیت فراہم کر کے طبرستان پر حملہ کیا‘ مگر مردادیح کے عامل سے شکست کھا کر نیشا پور کی طرف بھاگ گیا۔ ۳۱۹ھ میں مردادیح نے مناسب سمجھا کہ اپنے تمام مفتوحہ و مقبوضہ ملک کی سند عباسی خلیفہ سے حاصل کر لینی چاہیئے‘ چنانچہ اس نے ایک درخواست دربار خلافت میں بھیجی کہ مجھ کو ان بلاد کی سند حکومت عطا فرمائی جائے‘ میں دو لاکھ دینار سالانہ خراج دربار خلافت میں بھیجتا رہوں گا۔ خلیفہ نے یہ درخواست منظور کر کے سند بھیج دی اور اپنی طرف سے جا گیر بھی عطا فرمائی‘ ۳۲۰ھ میں مردادیح نے گیلان سے اپنے بھائی وثمگیر کو بھی بلوا بھیجا‘ مردادیح کی حکومت و سلطنت میں ابو شجاع بویہ نامی کے تین بیٹوں نے بسلسلہ ملازمت سرداریاں حاصل کیں اور انہیں کی وجہ سے یہ تمام داستان سنانی پڑی۔ ابو شجاع بویہ دیلمی ایک نہایت مفلس ماہی گیر تھا‘ مچھلیاں پکڑ کر اپنی اور اپنے عیال کی روزی بڑی محنت اور مشکل سے حاصل کرتا تھا‘ ایک روز اس نے خواب میں دیکھا کہ میں پیشاب کرنے بیٹھا ہوں اور میری پیشاب گاہ سے آگ کا ایک شعلہ نکلا جس نے پھیل کر دنیا کو روشن کر دیا۔ اس خواب کی اس نے یہ تعبیر کی کہ میری اولاد بادشاہ ہو گی اور جہاں تک اس شعلہ کی روشنی گئی ہے وہاں تک اس کی حکومت ہو گی‘ اس کے بعد بویہ ماہی گیر کے تین بیٹے ہوئے جن کے نام علی‘ حسن‘ احمد تھے‘ چونکہ بعد میں ان تینوں بھائیوں نے بڑی ترقی کی اور عمادالدولہ‘ رکن الدولہ‘ معزالدولہ کے نام سے صاحب حکومت و عزت ہوئے‘ لہٰذا کسی نے ان کا نسب یزدجرد شاہ ایران سے ملایا اور کسی نے ان کو بہرام گور کی اولاد میں بتایا‘ دولت و حکومت کے ساتھ ہی عالی نسبی کی بھی کوشش عام طور پر لوگ کیا کرتے ہیں اور خوشامدی لوگ اس کام کی سر انجام دہی میں سب سے زیادہ مفید ثابت ہوا کرتے ہیں۔ ہمارا شہر نجیب آباد پٹھانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے‘ یہاں پٹھان ایک معزز قوم سمجھی جاتی ہے‘ جن کو ہر قسم کی دولت و حکومت و عزت حاصل تھی۔ غدر ۱۸۵۷ء کے بعد جب پٹھانوں پر تباہی آئی تو بہت سے رام پور‘ بریلی‘ شاہ جہاں پور کی طرف جا کر آباد ہو گئے‘ بہت سوں کی نسلیں منقطع ہو کر نام و نشان گم ہو گیا۔ بہت ہی تھوڑے باقی رہ گئے جن پر افلاس نے طاری ہو کر ایسے ستم ڈھائے کہ وہ اب کسی قطار شمار میں نہیں آتے‘ ان کے غلاموں اور نوکروں کو چونکہ تلک الایام نداو لھا بین الناس کے قانون کے موافق اب خوب دولت و ثروت حاصل ہے‘ لہٰذا بہت سے غلام اپنے آپ کو پٹھان بتاتے ہیں‘ بہت سے جوگی بچوں نے اپنا سلسلہ نسب نواب نجیب الدولہ سے ملا دیا ہے‘ بہت سے تیلیوں‘ سقوں‘ حجاموں‘ جلاہوں‘ مراسیوں‘ دھوبیوں‘ باغبانوں اور ماہی گیروں نے علی