تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کے مہتدی کو خلیفہ بنا دیا ہے تو وہ معتز کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کر کے دارالخلافہ کی طرف روانہ ہوا‘ یہاں آ کر دربار خلافت میں حاضری کی درخواست بھجوائی‘ صالح موسیٰ کے آنے کی خبر سن کر روپوش ہو گیا تھا۔ موسیٰ کو خلیفہ نے اندر آنے کی اجازت دی‘ اس نے آتے ہی خلیفہ کو گرفتار کر کے اور ایک خچر پر سوار کر قید خانہ میں لے جانا چاہا‘ مہتدی نے کہا موسیٰ اللہ تعالیٰ سے ڈر آخر تیری نیت کیا ہے‘ موسیٰ نے کہا کہ میری نیت بخیر ہے‘ آپ یہ حلف کیجئے کہ صالح کی طرف داری نہ کریں گے‘ خلیفہ نے یہ حلف کر لیا‘ موسیٰ نے اسی وقت خلیفہ کی بیعت کر لی۔ اس کے بعد موسیٰ نے صالح کی تلاش شروع کی خلیفہ نے یہ کوشش کی‘ کہ موسیٰ اور صالح میں صلح ہو جائے‘ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ اور اس کے ہمراہیوں کو یہ شبہ گذرا کہ صالح کا پتہ خلیفہ کو معلوم ہے اور اسی نے صالح کو چھپا رکھا ہے‘ چنانچہ موسیٰ بن بغا کے مکان پر ترکوں کا جلسئہ مشورت منعقد ہوا اور خلیفہ مہتدی کے قتل یا معزولی کی تدبیریں سوچی گئیں‘ اس مجلس کا حال خلیفہ کو معلوم ہو گیا‘ اگلے دن سب کو دربار عام میں بلوایا اور مسلح ہو کر دربار میں غضب آلود چہرہ کے ساتھ آیا‘ ترکوں سے مخاطب ہو کر کہا مجھ کو تمہارے مشوروں کا حال معلوم ہو چکا ہے‘ تم مجھ کو دوسرے خلفاء کی طرح نہ سمجھنا‘ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے‘ تم میں سے بہت سوں کی جان لے لوں گا‘ میں وصیتیں کر آیا ہوں اور مارنے مرنے پر آمادہ ہوں‘ تم یاد رکھو کہ میری دشمنی تمہارے لیے باعث و بال ہو گی‘ میں قسمیہ کہتا ہوں کہ مجھ کو صالح کا کوئی حال معلوم نہیں کہ کہاں روپوش ہے‘ یہ سن کر لوگ خاموش رہے اور اس شورش میں سکون پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد موسیٰ نے منادی کرا دی کہ جو شخص صالح کو گرفتار کر کے لائے گا وہ دس ہزار انعام پائے گا۔ اتفاقاً ایک جگہ صالح کا پتہ چل گیا‘ موسیٰ نے اس کو قتل کرا کر اس کا سر نیزہ پر رکھ کر شہر میں تشہیر کرایا‘ مہتدی کو یہ حرکت ناگوار گذری‘ مگر ترکوں کی طاقت کے مقابلہ میں خلیفہ کچھ نہ کر سکتا تھا سخت مجبور تھا‘ آخر خلیفہ نے بابکیال نامی ترک سردار کو خط لکھا کہ موقعہ پا کر موسیٰ کو قتل کر دو‘ بابکیال نے یہ خط موسیٰ کو دکھا دیا‘ موسیٰ فوج لے کر قصر خلافت پر چڑھ آیا۔ ادھر اہل مغرب اور اہل فرغانہ نے خلیفہ مہتدی کی طرف سے مدافعت کی متعدد لڑائیاں ہوئیں۔ بابکیال اس عرصہ میں مقید ہو کر خلیفہ مہتدی کے قید خانہ میں آ چکا تھا‘ خلیفہ مہتدی نے بابکیال کو قتل کرا کر اس کا سر ترکوں کی طرف پھینک دیا‘ اس سے مخالف ترکوں کا جوش اور بھی بڑھ گیا‘ اور وہ ترک جو فرغانہ وغیرہ کے خلیفہ کی فوج میں شامل تھے بابکیال کے قتل سے ناراض ہو کر موسیٰ کی فوج میں جا ملے۔ جس زمانہ میں ترکوں نے خلیفہ مہتدی کا محاصرہ کر رکھا تھا بغداد‘ سامرا اور دوسرے مقامات کی رعایا خلیفہ مہتدی کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی کیونکہ رعایا اس خلیفہ کے عدل و داد سے بہت ہی خوش تھی اور خلیفہ صالح کے لقب سے یاد کیا کرتی تھی‘ مگر نتیجہ اس کا مہتدی کے خلاف نکلا خلیفہ کو شکست ہوئی اور ترکوں نے اس کر گرفتار کر کے خصیتین دبا کر مار ڈالا۔ یہ حادثہ ۱۴ رجب ۲۵۶ کو وقوع پذیر ہوا‘ خلیفہ مہتدی باللہ نے پندرہ دن کم ایک سال خلافت کی اور ۳۸ سال کی عمر میں مقتول ہوا‘ اس کے بعد ترکوں نے ابو العباس احمد بن