تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسحٰق تھی‘ اپنے دادا کے عہد خلافت ۲۱۸ھ میں پیدا ہوا اور ۳۷ سال کی عمر میں بتاریخ ۲۹ رجب ۲۵۵ھ تخت نشین ہوا‘ گندم گوں‘ دبلا پتلا‘ خوبصورت‘ عابد زاہد‘ عادل اور بہادر شخص تھا‘ احکام خداوندی کی پابندی کے رواج دینے میں بہت کوشاں تھا‘ تخت نشیں ہونے کی تاریخ سے مقتول ہونے تک برابر روزہ رکھتا رہا‘ مگر اس کو کوئی مددگار نہ ملا‘ اس نے ایسا خراب دور پایا کہ خلافت اسلامیہ کے عزت و وقار کو دوبارہ واپس لانا سخت دشوار تھا۔ ہاشم بن قاسم کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں شام کے وقت مہتدی کے پاس بیٹھا تھا‘ جب میں چلنے لگا تو مہتدی نے کہا بیٹھ جائو‘ میں بیٹھ گیا‘ پھر ہم نے افطار کیا‘ نماز پڑھی اور مہتدی نے کھانا طلب کیا تو ایک بید کی ڈلیا میں کھانا آیا‘ اس میں پتلی پتلی روٹیاں تھیں‘ ایک پیالی میں تھوڑا سا نمک دوسری میں سرکہ اور تیسرے برتن میں زیتون کا تیل تھا‘ مجھ سے بھی کھانے کو کہا‘ میں نے کھانا شروع کیا اور دل میں سوچا کہ کھانا ابھی اور آتا ہو گا اس لیے بہت آہستہ آہستہ کھانا شروع کیا‘ مہتدی نے میری طرف دیکھ کر کہا کیا تمہارا روزہ نہ تھا‘ میں نے کہا تھا‘ پھر پوچھا کہ کیا کل روزہ نہ رکھو گے؟ میں نے کہا رمضان کا مہینہ ہے روزہ کیوں نہ رکھوں گا‘ کہا پھر اچھی طرح کھائو اور یہ امید نہ رکھو کہ اور کھانا آتا ہو گا‘ کیونکہ اس کے سوا اور کھانا ہمارے یہاں نہیں ہے۔ میں نے تعجب سے کہا کہ امیر المومنین یہ کیا معاملہ ہے‘ خدائے تعالیٰ نے آپ کو تمام نعمتیں عطا کی ہیں‘ مہتدی نے کہا۔ ’’ہاں یہ سچ ہے‘ مگر میں نے غور کیا تو بنو امیہ میں سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ کو پایا کہ وہ کم کھانے اور رعایا کی راحت رسانی کی فکر سے بہت ہی لاغر ہو گئے تھے‘ پھر میں نے اپنے خاندان پر غور کیا تو مجھ کو بڑی شرم آئی کہ ہم لوگ بنی ہاشم ہو کر ان کی مانند بھی نہ ہوں‘ اسی لیے میں نے یہ طرز اختیار کیا جو تم دیکھ رہے ہو۔‘‘ مہتدی نے لہو و لعب کو سختی سے روک دیا تھا‘ گانے بجانے کو حرام قرار دیا تھا‘ عاملان سلطانی کو ظلم کرنے سے سخت ممانعت کر دی تھی۔ دفتر کے معاملات میں سختی سے کام لیتا تھا‘ خود رواز نہ اجلاس کرتا اور دربار عام میں انفصال مقدمات کا کام کرتا‘ منشیوں کو اپنے سامنے بٹھا کر حساب کتاب کرتا تھا۔ مہتدی باللہ کو بھی جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے ترکوں ہی نے خلافت پر بٹھایا تھا۔ صالح بن وصیف نے جو ترکوں میں سب سے زیادہ قابو یافتہ ہو رہا تھا مہتدی باللہ کو تخت نشین کرنے کے بعد ہی احمد بن اسرائیل‘ زید بن معتز باللہ‘ ابو نوح کو گرفتار کر کے قتل کر دیا اور ان کے مال و اسباب کو ضبط کر لیا‘ پھر حسن بن مخلد کو بھی گرفتار کر کے اس کا مال و اسباب ضبط کر لیا۔ خلیفہ مہتدی باللہ جب ان حالات سے اطلاع ہوئی تو بہت رنجیدہ ہوا اور کہا کہ ان لوگوں کے لیے قید ہی کی مصیبت کیا کم تھی جو ان کو ناحق قتل کیا گیا۔ اس کے بعد خلیفہ مہتدی باللہ نے سامرا سے تمام لونڈیوں اور مغنیوں کو نکلوا دیا‘ محل سرائے شاہی میں جس قدر درندے پلے ہوئے تھے‘ سب کے مار ڈالنے اور کتوں کے نکلوا دینے کا حکم دیا‘ قلم دان وزارت سلیمان بن وہب کے سپرد کیا‘ مگر صالخ بن وصیف نے اپنی حکمت عملی اور خوش تدبیری سے سلیمان بن وہب کو بھی اپنے قابو میں کر لیا اور خود حکومت کرنے لگا۔ معتز کی معزولی اور مہتدی کی تخت نشینی کے وقت موسیٰ بن بغا دارالخلافہ میں موجود نہ تھا‘ وہ رے کی طرف گیا ہوا تھا‘ اس نے جب یہ سنا کہ صالح نے معتز کو معزول کر