تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جعفر نے اپنے باپ رستم سے آ کر کہا‘ اس نے ایک آدمی رے بھیجا وہاں سے حسن بن زید طبرستان چلے آئے‘ یہاں دیلم‘ دربان وغیرہ سے لوگ آ آ کر بیعت ہونے شروع ہوئے‘ ایک جم غفیر فراہم ہو گیا اور حسن بن زید نے علاقہ طبرستان پر قبضہ کر لیا‘ اس کے بعد رے بھی قبضہ میں آ گیا۔ یہ خبر سن کر مستعین نے ہمدان کے بچانے کو ایک لشکر بھیجا جس کو شکست ہوئی اس کے بعد موسیٰ بن بغاکبیر کو دارالخلافہ سے معہ فوج روانہ کیا گیا۔ اس نے طبرستان کو تو حسن بن زید کے قبضہ سے نکال لیا‘ ویلم پر حسن بن زید کا قبضہ رہا‘ موسیٰ وہاں سے رے کی طرف واپس چلا آیا۔ انہیں ایام میں خلیفہ مستعین نے دلیل بن یعقوب نصرانی کو اپنا وزیر بنایا‘ چند روز کے بعد باغر نامی ایک ترک کو دلیل نصرانی وزیر سے کوئی شکایت پیدا ہوئی‘ اس معاملہ میں بغاصغیر اور وصیف نے باغر کو مجرم بتایا‘ خلیفہ نے اس کو قید کر دیا‘ ترکوں نے شورش برپا کی‘ ترکوں کی اس شورش کو دیکھ کر بغاصغیر نے باغر کو قتل کرا دیا‘ اس سے بجائے فرو ہونے کے شورش اور بھی ترقی کر گئی‘ تمام سامرا باغی ہو گیا اور ہر طرف سے بلوائیوں کے جھنڈے نظر آنے لگے‘ مجبوراً خلیفہ مستعین‘ بغاوصیف‘ شاہک اور احمد بن صالح بن شیر زاد سامرا سے نکل کر بغداد چلے آئے اور محرم ۲۵۱ھ میں بغداد کے اندر محمد بن عبداللہ بن طاہر کے مکان میں فروکش ہوئے‘ خلیفہ کے آنے کے بعد دفتر کے آدمی بھی وفا تر لے کر بغداد ہی آ گئے۔ خلیفہ کے بغداد چلے جانے کے بعد ترکوں کو پشیمانی ہوئی اور سامرا سے چھ ترک سردار بغداد میں خلیفہ کے پاس آ کر ملتجی ہوئے کہ آپ سامرا ہی تشریف لے چلیں‘ ہم سب اپنی حرکات ناشائستہ سے پشیمان اور معافی کے خواہاں ہیں۔ خلیفہ مستعین نے ترکوں کو ان کی بے وفائیاں اور گستاخیاں یاد دلائیں اور سامرہ جانے سے انکار کیا‘ ترکوں نے سامرہ واپس جا کر معتز بن متوکل کو جیل سے نکالا اور اس کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی‘ ابو احمد بن ہارون الرشید بھی اس زمانہ میں سامرہ میں موجود تھا‘ ابو احمد سے جب بیعت کے لیے کہا گیا تو اس نے کہا کہ میں چونکہ مستعین کے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہوں اور معتز اپنی معزولی ولی عہدی سے خود تسلیم کر چکا تھا لہٰذا میں بیعت نہیں کروں گا۔ معتز نے ابو احمد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور زیادہ اصرار نہیں کیا‘ بغاکبیر کے دونوں بیٹوں موسیٰ و عبداللہ نے بھی معتز کی بیعت کر لی‘ اسی طرح جو لوگ معتز کی خلافت کو پسند کرتے تھے وہ معتز کے پاس سامرا چلے گئے‘ جو مستعین کو پسند کرتے تھے وہ سامرا سے بغداد چلے آئے۔ یہی حال صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کی ہوا‘ کچھ اس طرف ہو گئے کچھ اس طرف‘ بغداد و سامرہ دونوں جگہ دو الگ الگ خلیفہ تھے‘ مستعین کی طرف خاندان طاہر یہ اور خراسانی لوگ زیادہ تھے‘ معتز کی جانب قریباً تمام ترک اور بعض دوسرے سردار بھی تھے‘ گیارہ مہینے تک جنگ و پیکار کا ہنگامہ دونوں خلیفوں میں برپا رہا۔ باہر کے صوبہ داروں سے دونوں خط و کتابت کرتے اور اپنی اپنی طرف مائل کرتے تھے‘ یہ جنگ سامرا و بغداد تک ہی محدود نہ رہی‘ بلکہ باہر کے صوبوں میں بھی اس کے شعلے مشتعل ہونے لیے‘ مگر زیادہ زور بغداد کے نواح میں رہا کیونکہ باہر والے دارالسلطنت کے نتائج کا انتظار کرتے تھے۔