تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غفلت برتی‘ اسی لیے دو خادم اسلام سردار شہید ہو گئے اور رومیوں کی جرئات مسلمانوں کے مقابلہ میں بڑھ گئی۔ اس قسم کی باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد میں ایک قسم کی شورش سی برپا ہو گئی اور لوگوں نے جہاد کے لیے تیاریاں شروع کر دیں‘ اطراف و جوانب سے بھی مسلمان بعزم جہاد آ آ کر شریک ہونے لگے‘ مسلمان امراء نے روپیہ بھی جمع کر دیا‘ ایک جم غفیر بغداد سے بغرض جہاد نکل کھڑا ہوا‘ مستعین اور اس کے اراکین دولت سامرا میں خاموش بیٹھے رہے اور کوئی دخل نہیں دیا‘ آخر مسلمانوں نے سامرہ پہنچ کر بھی اس قسم کی شورش برپا کر دی اور جیل خانہ توڑ کر قیدیوں کو آزاد کر دیا‘ اس کے بعد ترکی سردار بغا‘ وصیف اور اتامش ترکی فوج لے کر ان مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے‘ عوام الناس کا ایک گروہ کثیر مقتول ہوا اور جوش و خروش فرو ہو گیا۔ اتامش چونکہ زیادہ قابو یافتہ اور خزانہ شاہی میں تصرف کرنے کا بھی اختیار رکھتا تھا لہٰذا بغا اور وصیف اس سے رقابت رکھتے تھے۔ انہوں نے اتامش کے بعد عبداللہ بن محمد بن علی کو عہدہ وزارت عطا کیا‘ چند روز کے بعد بغا صغیر اور ابو صالح عبداللہ بن علی وزیر میں ناراضی پیدا ہوئی۔ ابو صالح عبداللہ بغا صغیر کے خوف سے سامرہ چھوڑ کر بغداد بھاگ گیا اور خلیفہ مستعین نے محمد بن فضل جرجانی کو وزیر بنایا‘ غرض خلیفہ مستعین بالکل ترکوں کے ہاتھ میں تھا‘ سامرہ میں سب ترک ہی آباد تھے اس لیے ترکوں کے قبضہ سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی خلیفہ نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں حالات میں یحییٰ بن حسین بن زید شہید نے جن کی کنیت ابو الحسین تھی کوفہ میں خروج کیا‘ کوفہ میں محمد بن عبداللہ بن طاہر کی جانب سے ایوب بن حسین بن موسیٰ بن سلیمان بن علی والی کوفہ تھا‘ ابو الحسین نے ایوب کو کوفہ سے نکال دیا اور شاہی بیت المال لوٹ لیا اور کوفہ پر قابض و متصرف ہو گئے۔ ابوالحسین نے کوفہ سے واسط کی طرف کوچ کیا‘ محمد بن عبداللہ بن طاہر نے حسین بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن حسین بن مصعب کو روانہ کیا‘ راستہ میں لڑائی ہوئی‘ ابوالحسین حسین بن اسماعیل کو شکست دے کر کوفہ میں واپس آ گئے‘ اور اہل بغداد بھی ان کی امداد پر آمادہ ہو گئے‘ حسین بن اسماعیل اپنا لشکر مرتب کر کے دوبارہ ابو الحسین یحییٰ بن عمر پر حملہ آور ہوا‘ کوفہ سے نکل کر یحییٰ نے مقابلہ کیا‘ سخت لڑائی کے بعد ابوالحسین یحییٰ بن عمر مارے گئے‘ ان کا سر کاٹ کر سامرہ میں خلیفہ مستعین کے پاس بھیجا گیا جس کو مستعین نے ایک صندوق میں بند کرا کر اسلحہ خانہ میں رکھوا دیا‘ ابو الحسن یحییٰ ۱۵ رجب ۲۵۰ھ کو مقتول ہوئے۔ ابوالحسین پر فتح یاب ہونے کے صلہ میں خلیفہ مستعین نے محمد بن عبداللہ بن طاہر کو طبرستان میں جاگیریں عطا فرمائیں جن میں ایک جاگیر حدود دیلم کے قریب تھی۔ اس جاگیر پر قبضہ کرنے کے لیے جب محمد بن عبداللہ کا عامل گیا تو رستم نامی ایک شخص نے مخالفت کی‘ آخر ویلم والے اس مخالفت میں رستم اور اس کے دونوں بیٹوں محمد و جعفر کے طرف دار ہو گئے۔ طبرستان میں اس زمانہ میں محمد بن ابراہیم علوی موجود تھے۔ محمد و جعفر دونوں بھائیوں نے ان کے پاس آ کر کہا کہ آپ امارت کا دعوی کیجئے۔ ہم آپ کے حامی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تم رے میں جا کر حسن بن زید بن محمد بن اسمعیٰل بن حسن بن زید بن حسن سبط کی خدمت میں یہ درخواست پیش کرو وہ ہمارے سردار اور مقتدا ہیں۔ محمد و