تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
صدمہ سے مر گئے‘ عراق میں بیضہ مرغ کے برابر اولے پڑے اور مغرب میں تیرہ گائوں زمین میں دھنس گئے‘ ۲۴۳ھ میں شمالی افریقہ‘ خراسان‘ طبرستان‘ اصفحان میں سخت زلزلہ آیا‘ اکثر پہاڑ پھٹ گئے‘ اکثر آدمی زمین میں سما گئے‘ مصر کے گائوں میں پانچ پانچ سیر وزنی پتھر برسے‘ حلب میں ماہ رمضان ۲۴۳ھ لوگوں نے ایک پرندے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘ پھر اللہ اللہ چالیس مرتبہ کہا اور اڑ گیا‘۱؎دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوا‘ اس کی اطلاع حلب والوں نے دارالخلافہ میں کی اور پانچ سو آدمیوں نے اس کی شہادت دی‘ ۲۴۵ھ میں تمام دینا میں سخت زلزلے آئے‘ بہت سے شہر و قلعے مسمار ہو گئے‘ انطاکیہ میں ایک پہاڑ سمندر میں گر پڑا‘ مکہ معظمہ کے چشموں کا پانی غائب ہو گیا‘ متوکل نے عرفات سے پانی لانے کے لیے ایک لاکھ دینار دئیے‘ آسمان سے ہولناک آوازیں سنائی دیں۔ متوکل نہایت سخی تھا شعراء کو اس نے اس قدر انعام دیا کہ اب تک کسی خلیفہ نے نہ دیا تھا‘ اسی کے زمانہ میں سیدنا ذوالنون مصری۲؎ نے احوال و مقامات اہل ولایت کو ظاہر کیا تو عبداللہ بن عبدالحکیم شاگرد امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے ان سے انکار کیا اور ذوالنون مصری کو اس لیے زندیق کہا کہ انہوں نے وہ علم ایجاد کیا جو سلف صالحین نے نہ کیا تھا‘ حاکم مصر نے ذوالنون مصری کو طلب کر کے ان کے عقائد دریافت کیے تو وہ مطمئن ہو گیا اور متوکل کو ان کا حال لکھ بھیجا‘ متوکل نے ذوالنون کو دارالخلافہ میں طلب کیا اور ان کی باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور بڑی عزت و تکریم سے پیش آیا۔ متوکل کے مقتول ہونے کے بعد کسی نے اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے کیسا برتائو کیا‘ متوکل نے جواب دیا کہ میں نے جو تھوڑا سا احیاء سنت کیا ہے اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بخش دیا‘ ابن عساکر کا قول ہے کہ متوکل نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک شکر پارہ گرا ہے اس پر لکھا ہے کہ ’’جعفر المتوکل علی اللہ‘‘ جب وہ تخت نشین ہوا تو لوگوں نے اس کے لیے خطاب سوچا کسی نے منتصر تجویز کیا کسی نے اور کچھ‘ لیکن جب متوکل نے علماء کو اپنا خواب بیان کیا تو سب نے متوکل علی اللہ ہی خطاب پسند کیا۔ ایک مرتبہ متوکل نے علماء کو اپنے یہاں طلب کیا جن میں احمد بن معدل بھی تھے‘ جب سب علماء آ کر جمع ہو گئے تو اس جگہ متوکل بھی آیا‘ متوکل کو آتا دیکھ کر سب علماء تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے مگر ایک احمد بن معدل بد ستور بیٹھے رہے اور کھڑے نہیں ہوئے‘ متوکل نے اپنے وزیر عبیداللہ سے دریافت کیا کہ کیا اس شخص نے بیعت نہیں کی ہے‘ عبیداللہ نے کہا کہ بیعت تو کی ہے مگر ان کو کم نظر آتا ۱؎ سنداً یہ واقعہ درست اور ثابت نہیں۔ ۲؎ ذوالنون مصری کا شمار مشہور ’’صوفیاء‘‘ میں ہوتا ہے۔ ہے‘ احمد بن معدل نے فوراً کہا کہ میری آنکھوں میں کوئی نقصان نہیں ہے مگر میں آپ کو عذاب الٰہی سے بچانا چاہتا ہوں‘ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص لوگوں سے یہ امید رکھے کہ وہ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔۱؎ متوکل یہ سن کر احمد بن معدل کی برابر آ بیٹھا۔ یزید مہبلی کہتے ہیں کہ ایک روز مجھ سے متوکل نے کہا کہ خلفاء رعایا پر محض اپنا رعب قائم کرنے کے لیے سختی کرتے تھے مگر میں رعایا کے ساتھ اس لیے نرمی کا برتائو کرتا ہوں کہ وہ بہ کشادہ پیشانی میری خلافت کو قبول کر کے میری اطاعت کریں‘