تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اپنے خاص خاص ترکی غلاموں کو بڑی بڑی سپہ سالاریاں سپرد کر رکھی تھیں۔ اس کے زمانے میں ترکوں نے بہت ترقی کی اور وہ بہت جلد شائستہ و ذی حوصلہ بن کر اولوالعزمی دکھانے لگے‘ بظاہر معتصم نے ترکی فوجوں کے بڑھانے اور ترکوں کو ترقی دینے میں خراسانیوں کا زور گھٹانا چاہا تھا جو اس سے پہلے عربوں کے زور کو گھٹا اور مٹا چکے تھے۔ لیکن بعد میں یہی ترک خلافت عباسیہ کی بربادی کا موجب ہوئے۔ معتصم سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے ایک تیسری قوم کو زندہ و طاقتور بنایا‘ حالانکہ اس کو چاہیئے تھا کہ وہ عربوں کو کسی قدر سہارا دے کر پھر خراسانیوں کا مد مقابل بنا دیتا‘ لیکن چونکہ اس کے باپ دادا شروع سے عربوں کو دشمن سمجھتے اور خراسانیوں کو قابل اعتماد سمجھ کر عربوں کو ناقابل اعتماد سمجھتے رہے تھے۔ لہٰذا اس کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ اپنے خاندان کی قدیمی راہ عمل کو مکمل درہم برہم کر دے۔ معتصم خراسانیوں کی بغاوتوں اور سازشوں کے حالات بھی سن چکا تھا اور جانتا تھا کہ اس کے باپ دادا کو کس طرح خراسانیوں کی سازش کا بار بار مقابلہ کرنا پڑا ہے‘ نیز یہ بھی جانتا تھا کہ علویوں کو جو ہمارے قدیمی رقیب ہیں خراسانیوں اور عربوں دونوں میں رسوخ حاصل ہے۔ اور دونوں سے وہ ہمارے خلافت قوت و امداد حاصل کر لیتے ہیں‘ اس لیے معتصم نے اگر ایک تیسری قوم کو جس پر علویوں کا اثر نہ تھا طاقتور بنایا تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس تیسری قوم یعنی ترکوں کو ابھی تک اسلام سے بوجہ اپنی جہالت و وحشت کے کوئی انس اور قوی تعلق پیدا نہ ہوا تھا۔ ترکوں کو اگرچہ مغلوب و محکوم تو عرصہ دراز سے بنایا جا چکا تھا لیکن ان میں اسلام کی اشاعت کما حقہ نہیں کی گئی تھی۔ جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ترکوں کے علاقے پر جس کو ماوراء النہر کہا جاتا تھا عموماً ترک سردار ہی باختیار رئیسوں کی طرح حکومت کرتے اور حکومت اسلامیہ کو خراج ادا کرتے تھے۔ ان نو مسلم ترکوں نے یکایک ترقی کر کے جب دیکھا کہ خلافت اسلامیہ کی سب سے زبردست فوج ہم ہی ہیں تو وہ خلافت اسلامیہ کا تختہ الٹ دینے کے خواب دیکھنے لگے جیسا کہ افشین کے حالات سے ثابت ہے۔ خلیفہ معتصم اگرچہ جاہل تھا‘ اس نے ترکوں کو فوج میں بھرتی کرنے اور طاقتور بنانے کا جو طرز عمل اختیار کیا تھا اس کی خرابی کو دور کرنے اور خطرات کو مٹا دینے کی اس میں پوری قابلیت موجود تھی۔ اسی لیے اس کے سامنے ترکوں کے ہاتھوں سے حکومت اسلامیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکا‘ اگر اس کے جانشین بھی اسی قابلیت کے ہوتے یا معتصم کو زیادہ مدت تک خلافت و حکومت کا موقعہ ملتا تو یہ خرابیاں جو بعد میں پیدا ہوئیں‘ پیدا نہ ہو سکتیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو یہ سب وہمی اور خیالی باتیں ہیں‘ اصلی خرابی اور سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ مسلمانوں میں حکومت اسلامیہ کے لیے وراثت کی لعنت کو تسلیم کر لیا گیا تھا اور باپ کے بعد بیٹے کا حقدار خلافت ہونا مانا جاتا تھا‘ اس بدعت سیئہ نے اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ سخت نقصان پہنچایا اور صدیقؓ و فاروقؓ کی سنت کے بھلا دینے نے مسلمانوں کو یہ دن دکھایا۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ بہر حال معتصم کی خلافت کے زمانے سے ترکوں کا دور زندگی شروع ہو جاتا ہے۔ معتصم کو خلیفہ مثمن بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ آٹھ کے عدد کو خصوصی تعلق تھا۔ معتصم خلیفہ ہارون الرشید کی آٹھویں اولاد تھا‘ وہ ۱۸۰ھ یا بہ قول دیگر ۱۷۸ھ میں پیدا ہوا‘ ان دونوں سنوں میں آٹھ کا عدد موجود ہے‘ وہ ۲۱۸ھ میں تخت نشین ہوا‘ یہاں