تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الرشید کی فرمائش سے علم جبر و مقابلہ پر ایک کتاب لکھی اور وہ اصول قائم کئے کہ ان اصولوں میں آج تک نہ ترمیم ہو سکی نہ اضافہ ممکن ہوا۔ زمین کے گول ہونے کا حال جب یونانی کتابوں میں دیکھا تو مامون الرشید نے جغرافیہ و ہئیت کے علماء کو بلا کر حکم دیا کہ زمین کے محیط کی پیدائش معلوم کرنے کے لیے کوئی وسیع و ہموار میدان انتخاب کر کے ایک درجہ کی پیمائش کریں۔ چنانچہ سنجار کا مسطح میدان انتخاب کیا گیا۔ علماء ایک مقام پر قطب شمالی کی بلندی کے ساتھ زاویہ قائم کر کے ٹھیک شمال کی جانب جریب ڈالتے اور ناپتے ہوئے بڑھے‘ ۳/۴۹۲ میل شمال کی جانب جانے سے قطب شمالی کی بلندی کے زاویہ میں پورا ایک درجہ بڑھ گیا۔ اور معلوم ہو گیا کہ جب ایک درجہ کی مسافت سطح زمین پر۳/۴۹۲ میل ہے تو زمین کا کل محیط ۲۴ ہزار میل ہونا چاہیئے‘ کیونکہ ہر نقطہ پر تمام زاویوں کا مجموعہ ۳۶۰ درجہ ہوتا ہے اور ۳۶۰ کو میں ضرب دینے سے ۲۴ ہزار میل کے قریب فاصلہ برآمد ہوتا ہے۔ دوبارہ یہی تجربہ صحرائے کوفہ میں بھی کیا گیا اور وہی نتیجہ برآمد ہوا۔ خالد بن عبدالملک مروروزی اور یحییٰ بن ابی منصور وغیرہ کے ذریعہ شماسیہ کی رسد گاہ تعمیر و مکمل کرائی اور اجرام سماویہ کے مطالعہ پر علماء ہئیت مامور کئے۔ فرامین بھیج کر ہر ایک شہر اور ہر ایک علاقے سے علماء و فضلاء طلب کئے گئے‘ علمی مجلسیں اور مناظرے منعقد ہوتے‘ مامون ان میں شریک ہو کر حصہ لیتا۔ ادیب‘ شاعر‘ متکلم‘ طبیب غرض ہر علم و فن کے باکمال بغداد میں ایسے بلند پایہ موجود تھے جن میں سے کسی کا جواب دنیا میں ملنا دشوار تھا۔ اصمعی جو لغات عرب اور نحو و ادب کا امام تھا پیرانہ سالی کی وجہ سے کوفہ کو چھوڑ کر بغداد نہ آ سکا‘ اس کو وہیں وظیفہ ملتا تھا۔ اور اہم مسائل حل کرنے کے لیے وہیں بھیجے جاتے تھے۔ فراء نحوی نے بغداد میں علم نحو کی تدوین کی اور کتابیں لکھوائیں۔ اس کے لیے ایوان شاہی کا ایک کمرہ خالی کر دیا گیا تھا جس میں علماء طالب علمانہ حیثیت سے استفادہ کرنے آتے تھے۔ فن خوش نویسی پر مامون ہی کے زمانے میں کتابیں لکھی گئیں اور اس فن کے اصول و قواعد مدون و مرتب ہوئے۔ غرض مامون الرشید کی توجہ اور سر پرستی علوم کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے سامنے یونانیوں‘ ایرانیوں‘ مصریوں اور ہندیوں کے علوم و فنون سب یک جا بے نقاب ہو گئے۔ اگرچہ مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے کسی علم و فن کی ضرورت نہ تھی تاہم ان قدیم فلسفوں اور متفرق علوم کی طرف مسلمانوں کی توجہ نے مبذول ہو کر سب کو اس طرح مرتب و مہذب کر دیا کہ گویا نئے سرے سے ایجاد کیا۔ کامل آزادی سے کام لیا گیا‘ اور بظاہر یہ مختلف قوموں کے حکمیہ علوم فلسفہ قرآن کے مقابلے پر آئے‘ اور خدام اسلام کو موقعہ ملا کہ انھوں نے ان تمام فلسفوں اور تمام مخالف قرآن اصولوں کو غلط اور نا درست ثابت کیا۔ اس طرح مذاہب و علوم کی معرکہ آرائیوں کا سلسلہ جاری ہو کر اسلام کو جو علمی فتوحات حاصل ہوئیں وہ ان ملکی فتوحات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں جو عہد بنو امیہ میں حاصل ہوئیں اور یہی علمی فتوحات ہیں جنہوں نے خلافت عباسیہ کے مرتبہ کو خلافت بنو امیہ کا ہمسر بنا دیا ورنہ فتوحات ملکی کے اعتبار سے خلافت عباسیہ ہرگز خلافت بنو امیہ کی حریف و ہمسر نہیں ہو سکتی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فتوحات