تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مامون الرشید کے عہد حکومت کا کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں جو جنگ و پیکار اور زدو خورد کے ہنگاموں سے خالی ہو اور مامون الرشید کو ملکوں اور صوبوں کے انتظامات اور باغیوں کی سرکوبی کے اہتمام سے فراغت حاصل ہوئی ہو‘ لہٰذا توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایک ایسا مصروف افکار اور حالات سلطنت سے ہمہ اوقات با خبر رہنے والا خلیفہ علوم و فنون کی طرف بھی توجہ کر سکا ہو گا۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ مامون الرشید عباسی کے عہد خلافت میں علوم و فنون کے جس قدر دریا بہے اور مامون نے اس طرف توجہ کر کے جو جو کارہائے نمایاں علمی دنیا کے لیے انجام دئیے اس کی نظیر دوسری جگہ دستیاب نہیں ہو سکتی‘ اور یہی وجہ ہے کہ اس کی شہرت و عظمت نے غیر معمولی رتبہ بلند حاصل کر لیا ہے۔ ہارون الرشید نے بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ایک دارالترجمہ اور دارالتصنیف قائم کیا تھا جس میں مختلف ملکوں کے رہنے والے مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف زبانیں جاننے والے علماء مصروف کار رہتے تھے۔ مامون کو ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ کرانے کا شوق ہوا تو اس نے قیصر روم کو لکھا کہ ارسطو کی تمام تصانیف جہاں تک دستیاب ہو سکیں فراہم کر کے ہمارے پاس بھیج دو۔ قیصر کو اس حکم کی تعمیل میں کچھ تامل ہوا‘ اور اس نے اپنے عیسائی علماء سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا کہ فلسفہ کی کتابیں ہمارے ملک میں مقفل و محفوظ ہیں اور ان کو پڑھنے پڑھانے کی کسی کو اجازت نہیں کیونکہ اس سے مذہبی احترام لوگوں کے دلوں میں باقی نہیں رہ سکتا۔ ان کتابوں کو آپ ضرور خلیفہ اسلام کے پاس بھجوا دیں تاکہ وہاں فلسفہ کی اشاعت ہو اور مسلمانوں کا مذہبی جوش سرد پڑ جائے‘ قیصر نے پانچ اونٹ ان کتابوں سے لاد کر مامون الرشید کے پاس بھجوا دئیے۔ مامون الرشید نے یعقوب بن اسحٰق کندی کو ان کے ترجمہ پر مامور کیا۔ پھر مامون نے خود اپنی طرف سے عیسائی علماء کو جو اس کے یہاں نوکر تھے بلاد روم و یونان کی طرف روانہ کیا کہ وہاں سے علوم و فنون کی کتابیں تلاش کر کے لائیں قسطا بن لوقا ایک عیسائی فلاسفر خود اپنے شوق سے روم کے ملک میں گیا اور وہاں سے کتابیں تلاش کر کے لایا۔ مامون الرشید نے اس کو دارالترجمہ میں نوکر رکھ لیا۔ اسی طرح اس نے مجوسی علماء کو بڑی بڑی بیش قرار تنخواہوں پر نوکر رکھ کر مجوسیوں کے علوم و فنون کے ترجمہ کی خدمت سپرد کی۔ ہندوستان کے راجائوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے مامون الرشید کی خدمت میں سنسکرت کے عالموں اور بڑے بڑے پنڈتوں کو بطور تحفہ بھیج کر خلیفہ کی خوشنودی حاصل کی۔ بیت الحکمت کے مترجموں کی تنخواہیں ڈھائی ڈھائی ہزار تک تھیں اور ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ جن میں یعقوب کندی‘ حنین بن اسحٰق‘ قسطا بن لوقا بعلبکی‘ ابوجعفر یحییٰ بن عدی‘ جبرئیل بن بختیشوع وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ علاوہ تنخواہوں کے مترجموں کو ایک کتاب کے ترجمہ کے برابر سونا یا چاندی تول کر دی جاتی تھی۔ فلسطین۔ مصر۔ اسکندریہ۔ سسلی۔ روم۔ ایران۔ ہندوستان وغیرہ ملکوں سے علوم و فنون کی کتابیں منگوا کر عربی میں ترجمہ کرائی جاتی تھیں اور بہت سے مترجمین علوم و فنون پر خود بھی کتابیں تصنیف کرتے تھے۔ بعض ذی علم مترجمین ترجموں کی اصلاح اور نظر ثانی پر مامور تھے۔ مامون الرشید ہی کے عہد میں ایک مشہور عالم محمد بن موسیٰ خوارزمی نے مامون