تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی حکومت پر مقرر کیا تھا‘ ہر جگہ حکومت عباسیہ کے خلاف علوی ہی مصروف عمل تھے‘ یہ ابوالسرایا کی دانائی تھی کہ اس نے علویوں کو صوبوں اور ولایتوں کی حکومتیں دے کر بظاہر اپنی حکومت کو علوی حکومت بنا دیا تھا‘ ابوالسرایا کا خاتمہ ہو گیا لیکن اکثر علوی جو صوبوں پر قابض و متصرف ہو چکے تھے انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی خلافت قائم کرنے کی جدوجہد میں برابر مصروف رہے‘ قتل امین کے بعد علویوں کو نہایت ہی زریں موقعہ ہاتھ آ گیا تھا‘ کیوں کہ خود مامون پر جن لوگوں نے قبضہ حاصل کر لیا تھا یعنی فضل و حسن پسران سہل بھی ایرانی النسل ہونے کے سبب آل ابی طالب کو آل عباس سے بہتر سمجھتے تھے۔ اور ان کا میلان خاطر علویوں کی طرف زیادہ تھا۔ مامون نے خود جعفر برمکی سے تربیت پائی تھی۔ اس لیے اس کے دل میں بھی سادات کی عزت و عظمت بہت زیادہ تھی اور اس کے وزیراعظم کو بہترین موقع حاصل تھا کہ وہ امین کے قتل سے فارغ ہونے کے بعد سلطنت کا رخ علویوں کی جانب پھیر دے۔ مگر ہرثمہ بن اعین کی فوجی قابلیت نے ابوالسرایا کا خاتمہ کر کے عراق کو صاف کر دیا اور علویوں کے طرز حکومت نے ان کو حجاز و یمن میں ناکام رکھا۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب ابوالسرایا نے حسین افطس یعنی حسین بن حسن بن علی بن حسین کو مکہ کا حاکم بنا کر روانہ کیا تو اتفاقاً مکہ میں ہارون الرشید کا مشہور خادم مسرور معہ سو ہمراہیوں کے گیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں مامون کی طرف سے مکہ کا عامل دائود بن عیسیٰ بن موسیٰ عباسی تھا۔ مسرور اور دائود نے مکہ میں حسین افطس کے آنے کی خبر سن کر آل عباس اور ہمدردان آل عباس کا ایک جلسہ منعقد کر کے مشورہ کیا کہ اب ہم کو کیا کرنا چاہیئے‘ مسرور اور دوسرے لوگوں نے مقابلہ اور جنگ کرنے کی رائے دی مگر دائود نے کہا کہ میں حرم شریف میں قتل و خون ریزی کو پسند نہیں کرتا۔ اگر حسین افطس مکہ میں ایک طرف سے داخل ہوا تو میں دوسری طرف سے نکل جائوں گا۔ مسرور یہ سن کر خاموش ہو گیا اور دائود نے حسین افطس کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر عراق کی طرف کوچ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسرور بھی مکہ سے چل دیا‘ حسین افطس مکہ سے باہر مقیم اور داخل ہونے میں متامل تھا‘ اس نے جب یہ سنا کہ مکہ آل عباس سے خالی ہو گیا ہے تو وہ صرف دس آدمیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا۔ طواف کیا اور ایک شب مکہ میں مقیم رہ کر اپنے اور ہمراہیوں کو بھی بلا کر مکہ پر قبضہ کر لیا اور حکومت کرنے لگا۔ ابراہیم بن موسیٰ بن جعفر صادق نے یمن میں پہنچ کر مامون کے عامل اسحٰق بن موسیٰ بن عیسیٰ کو یمن سے بھگا دیا اور یمن پر قابض و متصرف ہو کر حکومت شروع کی۔ حسین افطس نے خانہ کعبہ کا غلاف اتار کر دوسرا غلاف جو ابوالسرایا نے کوفہ سے بھیجا تھا‘ چڑھایا۔ بنو عباس کے مال و اسباب اور گھروں کو لوٹ لیا۔ ان کی امانتوں کو جبراً لوگوں سے چھین لیا۔ پھر عام مکہ والوں کے مال و اسباب پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ کعبہ شریف کے ستونوں پر جس قدر سونا چڑھا ہوا تھا اس کو اتار لیا۔ خانہ کعبہ کے خزانہ میں جس قدر نقد و جنس تھا سب کو نکال کر اپنے ہمراہیوں میں تقسیم کر دیا۔ حسین افطس کے ہمراہیوں نے حرم شریف کی جالیوں تک کو توڑ ڈالا۔ ادھر ابراہیم نے یمن پہنچ کر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا اور بے گناہوں کو بکثرت قتل کرنے کی وجہ سے قصاب کا خطاب پایا۔ چنانچہ ابراہیم قصاب کے نام سے اب تک تعبیر کیا جاتا ہے۔ علویوں کے دوسرے سرداروں نے بھی جو ابراہیم بن موسیٰ اور حسین