تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اب لڑائی اور زور آزمائی کے لیے امین و مامون کو کسی چیز کے انتظار کی ضرورت نہ تھی۔ فضل بن سہل کو مامون نے ذوالریاستیں یعنی صاحب السیف والقلم کا خطاب دے کر اپنا مدارالمہام سلطنت بنایا۔ طاہر بن حسین بن مصعب بن زریق بن اسود خزاعی کو فوج کی سپہ سالاری سپرد کی گئی۔ فضل بن سہل نے سرحدی ولایت رے میں جا کر وہاں کے جنگ آزمودہ سپاہیوں کو فراہم کیا اور اس سرحدی علاقہ کے لوگوں کی ایک فوج بھرتی کر کے سپہ سالار کو سپرد کی۔ طاہر بن حسین نے ابوالعباس خزاعی کو لشکر رے کا امیر مقرر کیا۔ ابوالعباس نے رے میں اپنے لشکر کو کیل کانٹے سے درست کیا۔ ادھر امین الرشید نے عصمت بن حماد بن سالم کو ایک ہزار پیادوں کی جمعیت سے ہمدان کی طرف روانہ کر کے حکم دیا کہ تم ہمدان میں مقیم رہ کر اپنے مقدمۃ الجیش کو سادہ کی طرف روانہ کرنا۔ اس کے بعد امین نے ایک بڑا لشکر مرتب کر کے فضل بن ربیع کے مشورہ سے علی بن عیسیٰ بن ماہان کی سپہ سالاری میں مامون کے مقابلہ کو خراسان کی طرف روانہ کیا۔ امین اور اس کے وزیر فضل بن ربیع کی یہ سخت غلطی تھی کہ علی بن عیسیٰ کو سپہ سالار بنا کر خراسان کی طرف روانہ کیا۔ اہل خراسان علی بن عیسیٰ سے اس کے عہد گورنری سے ناخوش تھے۔ اس کے آنے کی خبر سن کر اہل خراسان اور بھی زیادہ لڑنے اور مارنے پر آمادہ ہو گئے۔ امین نے علی بن عیسیٰ کو نہاوند۔ ہمدان۔ قم۔ اصفہان اور بلاد حیل بطور جاگیر عطا کئے اور خزانہ خلافت سے ہر قسم کا سامان اور روپیہ ضرورت سے زیادہ دے کر پچاس ہزار سواروں کے ساتھ رخصت کیا اور عمال کے نام فرامین جاری کئے کہ علی بن عیسیٰ کی کمک کے لیے لشکر روانہ کریں اور ہر قسم کی امداد اس کو پہنچائیں۔ علی بن عیسیٰ امین کی ماں زبیدہ خاتون سے رخصت ہونے کے لیے حاضر ہوا تو اس نے مامون کے متعلق علی کو نصیحت کی کہ اس کو گرفتار کر کے کوئی بے ادبی کا برتائو نہ کرنا۔ شعبان ۱۹۵ھ میں علی بن عیسیٰ بغداد سے روانہ ہوا۔ خود خلیفہ امین اور ارکان سلطنت بطریق مشایعت اس لشکر کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ یہ اس شان و شکوہ کا لشکر تھا کہ اہل بغداد نے اب تک ایسا عظیم الشان لشکر نہیں دیکھا تھا۔ علی بن عیسیٰ خلیفہ امین سے رخصت ہو کر رے کے قریب پہنچا تو اس کے ہمراہیوں نے رائے دی کہ ہراول اور مورچے قائم کرنے چاہئیں۔ مگر علی نے کہا کہ طاہر جیسے شخص کے مقابلہ میں مورچے اور ہراول قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ طاہر بھی علی کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر رے سے نکلا اور رے سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر دونوں کا مقابلہ ہوا۔ علی بن عیسیٰ کے ہمراہ پچاس ہزار سے زیادہ فوج تھی اور طاہر بن حسین کے لشکر کی کل تعداد چار ہزار فوج تھی۔ دونوں کی قوتوں کا یہ ایسا نمایاں فرق تھا کہ علی بن عیسیٰ نے صف آرائی کے وقت اپنی فوج سے کہا کہ ان لوگوں کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کو گھیر کر گرفتار کر لینا چاہیئے۔ علی بن عیسیٰ کے عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر طاہر بن حسین کے لشکر سے عین صف آرائی کے وقت کچھ لوگ فرار ہو کر علی بن عیسیٰ کے پاس چلے گئے تاکہ فتح مند ہونے والے گروہ کی شرکت سے فائدہ اٹھائیں اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہیں۔ مگر علی بن عیسیٰ نے ان لوگوں کو پٹوا کر نکال دیا اور بعض کو قید کر لیا اس سے طاہر بن