تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا حکم دے کر ہارون بے ہوش ہو گیا۔ جب اس کو ہوش آیا تو جس مکان میں ٹھہرا ہوا تھا اسی مکان کے ایک گوشہ میں قبر کھودنے کا حکم دیا۔ جب قبر کھد گئی تو چند حافظوں نے قبر میں اتر کر ختم قرآن کیا۔۱؎ ہارون نے اپنی چارپائی قبر کے کنارے بچھوا لی اور چار پائی پر پڑے پڑے قبر کو دیکھتا رہا۔ اسی حالت میں ۳۔ جمادی الثانی ۱۹۳ھ مطابق ۲۴ مارچ ۸۰۸ء بہ وقت شب انتقال کیا۔ اس کے بیٹے صالح نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ ۲۳ سال ڈھائی مہینے ہارون الرشید نے خلافت کی۔ طوس میں اس کی قبر موجود ہے۔ ہارون الرشید کا نکاح زبیدہ بنت جعفر بن منصور سے ہوا تھا۔ زبیدہ کی کنیت ام جعفر تھی۔ محمد امین اسی کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ علی۔ عبداللہ۔ مامون۔ قاسم۔ موتمن۔ محمد معتصم۔ صالح۔ محمد ابوموسیٰ۔ محمد ابو یعقوب۔ ابوالعباس۔ ابوسلیمان۔ ابو علی۔ ابو احمد یہ سب بیٹے امہات اولاد ۔۔۔۔ سے پیدا ہوئے تھے۔ ہارون الرشید کے ان لڑکوں میں امین‘ مامون‘ موتمن‘ معتصم چار زیادہ مشہور ہیں۔ معتصم پڑھا لکھا نہ تھا۔ اسی لیے ولی عہدی کے قابل اس کو ہارون نہیں سمجھا۔ مگر وہ خلیفہ ہوا۔ اور اسی کی اولاد سے بہت سے خلیفہ عباسی ہوئے اور اسی سے ہارون الرشید کی نسل چلی۔ ہارون الرشید نے مرتے وقت جس طرح بہت سے بیٹے چھوڑے اسی طرح بیٹیاں بھی بہت سی تھیں جو سب کنیزوں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں۔ ہارون الرشید کے خاندان عباسیہ میں آفتاب خاندان سمجھنا چاہیئے۔ اس کے زمانے میں خلافت عباسیہ نہایت مضبوط ہو کر اپنی معراج کمال کو پہنچ گئی تھی۔ ہارون الرشید کے عہد خلافت میں آل ابی طالب اور دوسرے سازشی گروہوں کی ہمتیں پست ہو چکی تھیں۔ اس کو علم و فضل کا بے حد شوق اور پابندی مذہب کا بہت خیال تھا۔ زندیقوں کے فتنہ کا اس کے عہد میں بکلی استیصال ہو چکا تھا۔ روم و ۱؎ سنداً یہ واقعہ کس پایہ کا ہے؟ یہ تحقیق طلب ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تو یہ واقعہ ہمارے لیے حجات نہیں۔ جو امر قرآن و سنت کے خلاف ہو‘ اس کا غلط ہونا بالکل ظاہر ہے۔ قرآن خوانی اور ختم قرآن کے نام سے ہمارے معاشرہ میں جو رسم یا رسوم کا سلسلہ جاری ہے‘ یہ صریحاً بدعت کے زمرہ میں آتا ہے۔ کیوں کہ قرآن و سنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یونان کی عظیم الشان عیسائی سلطنتیں اس کی خراج گزار تھیں۔ ہارون الرشید نے مرتے وقت خزانے میں نوے کروڑ دینار چھوڑے تھے۔ اندلس و مراقش کے علاوہ وہ تمام عالم اسلام کا فرما نروا تھا۔ منصور ہی کے زمانے سے تصنیف و تالیف کا کام شروع ہو چکا تھا۔ ہارون الرشید کے زمانہ میں یہودی اور عیسائی علماء کی بھی قدر دانی دربار بغداد میں ہوتی تھی۔ عیسائیوں کو ہارون نے فوجی سرداریاں بھی عطا کیں اور اپنی مصاحبت میں بھی جگہ دی۔ اس کے زمانے میں ہندوستان کے علماء بھی گورنر سندھ کی معرفت اور براہ راست خود بھی بغداد میں پہنچے اور وہاں ان کی قدر و منزلت بڑھائی گئی۔ عبرانی زبان کی کتابوں کے ترجمے ہوئے‘ مختلف علوم و فنون کی تدوین کا سلسلہ جاری ہوا۔ بغداد میں راحت و آسائش اور دولت و اطمینان لوگوں کو خوب حاصل تھا۔ اس لیے شاعری اور موسیقی کے چرچے بھی بغداد میں پائے جاتے تھے۔ قصہ گویوں نے ہارون الرشید کے متعلق بعض فرضی کہانیاں تصنیف کیں اور وہ کہانیاں دنیا میں مشہور ہو گئیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خلیفہ کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیل گئیں۔ ہارون الرشید بہادر اور سپاہی منش انسان تھا۔ وہ بڑی خوش دلی اور مسرت کے ساتھ گھوڑے کی زین پر مہینے اور برس صرف